جنت میں عمر کا محل جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
راوی:
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " دخلت الجنة فإذا أنا بالرميضاء امرأة أبي طلحة وسمعت خشفة فقلت : من هذا ؟ فقال : هذا بلال ورأيت قصرا بفنائه جارية فقلت : لمن هذا ؟ فقالوا : لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخله فأنظر إليه فذكرت غيرتك " فقال عمر : بأبي أنت وأمي يا رسول الله أعليك أغار ؟ . متفق عليه
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (معراج کی رات میں ) جب میں جنت میں داخل ہوا تو اچانک دیکھا کہ میرے سامنے رمیصا زوجہ ابوطلحہ موجود ہیں ۔ پھر میں نے قدموں کی چاپ سنی اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے (جس کے چلنے پھرنے کی آواز آرہی ہے) مجھے (جبرائیل یا کسی اور فرشتہ نے یا دورغہ جنت نے ) بتایا کہ یہ بلال ہیں اس کے بعد (ایک جگہ پہنچ کر ) میں نے ایک عالیشان محل دیکھا ، جس کے ایک گوشہ میں (یاصحن میں) ایک نوجوان عورت (یعنی حور جنت ) بیٹھی ہوئی تھی ، میں نے پوچھا !یہ کس کا ہے ؟ (اور ہمہ انواع کی یہ نعمتیں جو اس محل میں اور اس محل کے اردگرد ہیں کس کے لئے ہیں ) مجھ کو جنتیوں نے (یا اس محل پر متعین فرشتوں نے ) بتایا کہ یہ (محل اپنے تمام سازوسامان اور نعمتوں سمیت ) عمر ابن خطاب کا ہے (یہ سن کر ) میں نے چاہا کہ محل میں جاؤں اور اس کو اندر سے بھی دیکھوں لیکن پھر ( اے عمر ) مجھے غیرت کا خیال آگیا (کہ تمہارے محل کے اندر داخل ہونا تمہاری غیرت وحمیت کے منافی ہوگا اس لئے میں اندر جانے سے اجتناب کیا ) حضرت عمر نے (یہ سنا تو ) عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے داخل ہونے ) سے غیرت کروں گا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
رمیصا " حضرت ابوطلحہ انصاری کی بیوی اور حضرت انس بن مالک کی والدہ ماجدہ ہیں ، پہلے یہ مالک ابن نضر کے نکاح میں تھیں جن سے حضرت انس پیدا ہوئے مالک کے بعد ابوطلحہ نے ان سے عقد کرلیا تھا ، ان کے اصل نام کے بارے میں اختلاف ہے ام سلیم بھی کہی جاتی تھیں اور رمیصاء بھی ایک مشہور نام غمیصاء بھی ہے ، رمیصاء دراصل " رمص " سے ہے ، جس کے معنی اس سفید چیپڑ(میل کچیل ) کے ہیں جو آنکھ کے کونے میں جمع ہوجاتا ہے ۔ اور " غمیصاء " غمص سے ہے اس کے معنی ہیں : آنکھ سے چیپڑبہنا ۔
" کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیرت کروں گا " یہ اعلیک اغارکا ترجمہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس جملہ میں قلب الفاظ ہے یعنی اصل جملہ یوں ہے : اغار منکنیز بعض روایات میں یہ ہے کہ حضرت عمر نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد سن کر ) یہ بھی کہا : وہل رفعنی اللہ الابک وہل ہک انی اللہ الا بک یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ جو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے وہ محض آپ کے طفیل سے ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے ہدایت وراستی اور سرفرازی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ پہنچایا ہے ۔