حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان
راوی:
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب وفضائل بے شمار ہیں ان کی عظیم ترین شخصیت وحیثیت اور ان کے بلند ترین مقام ومرتبہ کی منقبت میں یہی ایک بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دعا قبول کرکے ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور ان کے ذریعہ اپنے دین کوزبردست حمایت وشوکت عطا فرمائی ۔ ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ منجانب اللہ راہ صواب ان پر روشن ہوجاتی تھی ، الہام والقاء کے ذریعہ غیبی طور پر ان کی راہنمائی ہوتی تھی ان کے دل میں وہی بات ڈالی جاتی تھی جو حق ہوتی تھی اور ان کی رائے وحی الہٰی اور کتاب اللہ کے موافق پڑتی تھی اسی بناء پر علماء کرام نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں ان کی رائے خلافت صدیق کے حق ہونے کی دلیل ہے ۔ جیسا کہ حضرت عمار یاسر کی شہادت کو حضرت علی مرتضی کے حق ہونے کی دلیل ماناجاتا ہے ۔
ابن مردویہ نے حضرت مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ (کسی مسئلہ ومعاملہ میں ) حضرت عمر فاروق جو رائے دیتے تھے اسی کے موافق آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں ، ابن عساکر نے سیدنا علی مرتضی کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں ، قرآن حضرت عمر کی رائے میں سے ایک رائے ہے یعنی قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ حضرت عمر کی رائے کے موافق ہے۔ حضرت ابن عمر سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر (کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو کہ ) تمام لوگوں کی رائے کچھ ہو اور عمر کی رائے کچھ ، اور پھر (اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی آیت نازل ہو تو وہ عمر کی رائے کے مطابق ہوگی " اس روایت کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ " موافقات عمر " (یعنی عمر کی رائے سے قرآن کریم میں جہاں جہاں اتفاق کیا گیا ہے ایسے مواقع ) بیس ہیں ۔'