عتیق نام کا سبب
راوی:
وعن عائشة أن أبا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أنت عتيق الله من النار " . فيومئذ سمي عتيقا . رواه الترمذي
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اور روایت ہے : (ایک دن ) حضرت ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا " تم دوزخ کی آگ سے اللہ کے آزادہ کردہ ہو " اسی دن سے ان کا ایک نام " عتیق " پڑ گیا ۔" (ترمذی )
تشریح :
" عتیق " کے معنی " بری " اور " آزادہ" کے ہیں ۔ حضرت ابوبکر کا نام " عتیق" بھی مشہور ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عتیق اللہ من النار فرمایا تھاہ ۔ بعض حضرات نے اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ " عتیق " چونکہ حسن وجمال ، شرافت ونجابت اور صاحب خیر کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہ تمام خوبیاں حضرت ابوبکر کی ذات میں موجود تھیں اس لئے ان کو" عتیق " کہا جاتا ہے لیکن خود حدیث نے چونکہ اس نام کی وجہ تسمیہ کی صراحت کردی ہے کہ " عتیق " سے مراد " دوزخ کی آگ سے آزاد شخص " ہے ۔ اس لئے کوئی دوسری وجہ تسمیہ بیان کرنا معتبر نہیں ہوگا ایک اور روایت میں بھی آیا ہے :
قال صلی اللہ علیہ وسلم من اراد ان ینظر بنظر الی عتیق من النار فلینظر الی ابی بکر ۔"
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دوزخ کی آگ سے بری اور آزاد شخص کے دیدار کی تمنا رکھتا ہو وہ ابوبکر دیکھ لے ۔"