حضرت ابوبکر کی افضلیت
راوی:
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما لأحد عندنا يد إلا وقد كافيناه ما خلا أبا بكر فإن له عندنا يدا يكافيه الله بها يوم القيامة وما نفعني مال قط ما نفعني مال أبي بكر ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا وإن صاحبكم خليل الله " . رواه الترمذي
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا کوئی شخص نہیں جس نے ہمیں کچھ دیا ہو ہماری امداد کی ہو اور ہم نے اس کا (جوں کا توں یا اس سے بھی زیادہ ) بدلہ اس کو نہ دے دیا ہو علاوہ ابوبکر کے یہ حقیقت ہے کہ ابوبکر نے ہمارے ساتھ عطاء وامداد کا جو عظیم سلوک کیا ہے اس کا بدلہ (یعنی کامل بدلہ ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی ان کو عطا کرے گا کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایاہے ۔ اگر میں کسی کو خلیل یعنی جانی دوست بناتا تو یقینا ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا ۔ یاد رکھو تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے خلیل ہیں (کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی دوست نہیں رکھتے ۔" (ترمذی )
تشریح :
ید سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جاسکے ، اس اعتبار سے یہ لفظ مال ودولت ، جان اور آل اولاد سب کو شامل ہے ، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ اور رسول کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے حضرت ابوبکر نے اپنا یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ فان لہ عندنا یدا یکافہ اللہ الخ کے ذریعہ حضرت ابوبکر کے جس عطاء وامداد کے عظیم سلوک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے ان کا وہ عظیم مالی ایثار مراد ہے جو انہوں نے حضرت بلال کو کافروں سے خرید کر اللہ کے رسول کی خوشنودی کی راہ میں آزاد کردینے کی صورت میں کیا تھا ۔ اور جس کی طرف قرآن کریم نے بھی اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔
(وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى 17 الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَه يَتَزَكّٰى 18 ) 92۔ الیل : 18-17)
" اور اس (دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ ) سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے اور جو اپنا مال اس غرض سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے کہ (گناہوں سے ) پاک ہوجائے ۔"
" جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے " اس کی سب سے بڑی دلیل وہ واقعہ ہے کہ جب ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے اللہ کی راہ میں مالی امداد وتعاون کے لئے کہا تو ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق جو کچھ مناسب سمجھا لا کر دیا اور حضرت ابوبکر گھر کا سارا اثاثہ وسامان سمیٹ کر لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ، اپنی اور اپنے اہل وعیال کی بڑی سے بڑی ضرورت کا بھی کوئی سامان گھر میں نہیں رہنے دیا ۔ یہاں تک کہ جب تمام مال وسامان اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور بدن کے کپڑوں تک کے لئے کچھ نہ رہا ، تو کملی کو بدن پر اس طرح لپیٹ لیا کہ کانٹے لگا کر اس کا خرقہ سابنا لیا ۔ اسی مناسبت سے حضرت ابوبکر کا ایک لقب " ذوالخلال بھی ہے ، خلال کانٹے کو کہتے ہیں ۔
ریاض الصالحین میں یہ روایت ہے کہ : جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے تو (یہ سن کر ) حضرت ابوبکر رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری جان اپنی ہے ، نہ میرا مال اپنا ہے ، میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ ہی کی ملکیت ہے ۔۔
موافقات میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان شخص کا مال میرے لئے ابوبکر کے مال سے زیادہ نافع نہیں ہے ، نیز حضرت ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چالیس ہزار درہم خرچ کئے ، عروہ کی روایت ہے کہ" حضرت ابوبکر نے اسلام قبول کیا تو اس وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے اور وہ سب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فی سبیل اللہ خرچ کئے۔عروہ ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے وہ سات غلام خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کئے جو (قبولیت اسلام ) کی وجہ سے اپنے آقاؤں اور مالکوں کی طرف سے سخت ظلم وتشدد کا شکار تھے ۔ حضرت بلال اور حضرت عامر ابن فہیرہ ان ہی سات میں سے ہیں ۔