ابن صیاد کاہن تھا
راوی:
وعن أبي سعيد الخدري قال لقيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر يعني ابن صياد في بعض طرق المدينة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أتشهد أني رسول الله ؟ فقال هو أتشهد أني رسول الله ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم آمنت بالله وملائكته وكتبه ورسله ماذا ترى ؟ قال أرى عرشا على الماء . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى عرش إبليس على البحر وما ترى ؟ قال أرى صادقين وكاذبا أو كاذبين وصادقا . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لبس عليه فدعوه . رواه مسلم .
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان سب کی ملاقات مدینہ کے ایک راستہ میں ابن صیاد سے ہوگئی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا ۔ " میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ( اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اچھا یہ بتا ) تو کیا چیز دیکھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں ایک تخت کو پانی پر دیکھتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " تو ابلیس کے تخت کو سمندر پر دیکھتا ہے ! پھر فرمایا ۔ " اس کے علاوہ اور کیا دیکھتا ہے ؟ ابن صیاد نے کہا کہ دو سچوں کو دیکھتا ہوں ( جو سچی خبریں لایا کرتے ہیں ) اور ایک جھوٹے کو دیکھتا ہوں ( جو جھوٹی خبریں لایا کرتا ہے ) یا دو جھوٹوں کو دیکھتا ہوں اور ایک سچے کو اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ سے مخاطب ہو کر ) فرمایا اس کے لئے صورت حال ( یعنی کہانت ) کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے ، اس کو چھوڑ دو ( یعنی یہ تو ٹھیک ٹھیک بات کرنے کے بھی قابل نہیں ہے کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے ۔ " ( مسلم )
تشریح :
تو ابلیس کے تخت کو سمندر پر دیکھتا ہے ۔ " کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ ابلیس پانی کے اوپر اپنا تخت بچھا کر اس پر اپنا دربار قائم کرتا ہے اور وہیں سے اپنے چیلوں اور اپنے ساتھیوں کی ٹولیوں کو دنیا میں بھی فتنہ وفساد پھیلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے روانہ کرتا ہے اس کا ذکر کتاب کے شروع میں باب الوسوسہ میں گزر چکا ہے ۔
یا دو جھوٹوں کو دیکھتا ہوں اور ایک سچے کو یہ یا تو راوی نے اپنا شک ظاہر کیا ہے کہ اس موقع پر روایت کے الفاظ اس طرح ہیں
یایہ کہ خود ابن صیاد ہی نے اس شک کے ساتھ بیان کیا ہو میں یا تو دو سچوں اور ایک جھوٹے کو دیکھتا ہوں یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کا معاملہ جس طرح خلط واحتمالات میں گرا ہوا تھا اور اس کے احوال جس طرح نظام واستقلال اور استقامت ویقین سے خالی تھے اس کا تقاضا ہی یہ تھا کہ اس کو کسی بھی صورت جزم ویقین حاصل نہ ہوا چنانچہ وہ کبھی اس طرح دیکھتا تھا اور کبھی اس طرح ۔