مردوں میں سب سے زیادہ محبت کہہ کر ابوبکر سے تھی
راوی:
وعن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه و سلم بعثه على جيش ذات السلاسل قال : فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : " عائشة " . قلت : من الرجال ؟ قال : " أبوها " . قلت : ثم من ؟ قال : " عمر " . فعد رجالا فسكت مخافة أن يجعلني في آخرهم . متفق عليه
اور حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک لشکر کا امیر (کمانڈر ) بنا کر ذات السلاسل بھیجا جو ایک جگہ کا نام ہے ) وہ بیان کرتے ہیں کہ (لشکر کی رواانگی سے پہلے یا واپسی کے بعد) جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ سے (کہ عورتوں میں وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں) میں نے عرض کیا : میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا (کہ مردوں میں سب سے زیادہ عزیز اور محبوب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کون ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ کے باپ یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، میں نے پوچھا ان کے بعد پھر کون (آپ کو زیادہ عزیز و محبوب ہے ؟ ) فرمایا عمر اس کے بعد (میرے پوچھنے کے مطابق ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد لوگوں کا ذکر کیا اور پھر میں خاموش ہوگیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آئے (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پوچھنے پر دوسرے لوگوں کے نام لیتے رہے تو پھر میں نے آگے نہ پوچھنا ہی بہتر جانا کہ میرا نام کہیں آخر میں نہ آئے ) ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
میرا سوال مردوں کے بارے میں تھا " یعنی حضرت عمرو ین العاص کی مراد یا تو ان سب مردوں سے تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے یا یہ کہ اس لشکر کے لوگ مراد تھے جس کا امیر ان کو بنایا گیا تھا۔ حضرت عمرو بن العاص کے اس سوال کا سبب دراصل یہ تھا کہ جب ان کو مذکورہ لشکر کا امیر بنا کر دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا تو بعد میں ان کی مدد کے لئے دو سو مجاہدین اسلام کا ایک اور لشکر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمانڈری میں روانہ کیا گیا ان دو سو مجاہدین میں انصار ومہاجرین میں سے جو بڑے بڑے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے ان میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی شامل تھے، اور لشکر کی امامت نماز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اسلام کو فتح عطا فرمائی اور دشمنان دین بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اس موقعہ پر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال میں یہ بات آئی کہ اس لشکر کے تمام لوگوں میں میرا مرتبہ سب سے بلند ہے جبھی تو مجھ کو ان سب کا امیر بنایا گیا ہے ۔ او ران کو میری کمان میں دشمن کے مقابلہ پر بھیجا گیا ۔چنانچہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا اس سے ان کو معلوم ہوگیا کہ میرے خیال میں جو بات آئی وہ صحیح نہیں تھی ۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے یعنی یہ کہ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کی مراد اس لشکر کے لوگوں سے تھی ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلی مرتبہ پوچھنے پر جو جواب دیا ۔ اس سے پہلے احتمال کی تائید ہوتی ہے کہ ان کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے تمام لوگوں سے تھی ۔