صحابہ کی تعظیم وتکریم لازم ہے
راوی:
عن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أكرموا أصحابي فإنهم خياركم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يظهر الكذب حتى إن الرجل ليحلف ولا يستحلف ويشهد ولا يستشهد ألا من سره بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان ثالثهم ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن "
" حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اصحاب کی تعظیم وتکریم کرو، کیونکہ وہ تمہارے برگزیدہ اور بزرگ ترین لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں یعنی تابعین اور پھر وہ لوگ جو ان (تابعین) کے قریب ہیں یعنی تبع تابعین اور اس کے بعد جھوٹ ظاہر ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک شخص قسم کھائے گا ، درانحالیکہ اس سے قسم کھانے کا مطالبہ نہ ہوگا اور گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی دینے کو نہ کہا جائے گا یاد رکھو جو شخص جنت کے بالکل درمیان (کہ جو جنت کی بہترین جگہ ہے) رہنا چاہے تو اس کو چاہے کہ جماعت کو لازم پکڑے کیونکہ شیطان اس شخص کا ساتھی بن جاتا ہے جو (خود رائے اور جماعت سے ) علیحدہ وتنہا ہوتا شیطان تو دو شخصوں سے بھی (جو اجتماعیت واتحاد کے ساتھ ہوں ) دور بھاگتا ہے اور ہاں کوئی مرد کسی اجنبی یعنی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہے ، کیونکہ ان کا تیسرا ساتھی شیطان ہوتا ہے ، (جوان دونوں کو بہکانے سے ہرگز نہی چوکے گا ) نیز جس شخص کو اس کی نیکی خوشی واطمینان بخشے اور اس کی بدی اس کو غمگین ومضطرب کردے وہ مؤمن ہے ۔"
تشریح :
اس حدیث میں بھی اسلام کے ابتدائی تینوں قرنوں کے لوگ یعنی جماعت صحابہ طبقہ تابعین اور طبقہ تبع تابعین کی فضیلت تمام امت پر ظاہر کی گئی ہے کہ یہ افراد امت کے وہ تین طبقے ہیں جو امت کے سب سے بہترین لوگ ہیں ملت کے سردار ومقتدا ہیں اور ان تینوں طبقوں کے لوگوں میں اور ان کے زمانوں میں غلبہ صدق ودیانت اور عفت وامانت کو حاصل تھا ۔ یہاں تک کہ ان طبقوں کے جن لوگوں کے لوگوں کے احوال وکوائف غیر معلوم تھے (جنہوں اصطلاح میں مستور الحال کہا جاتا ہے) ان کو بھی " عادل " مانا گیا ہے ، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کسی شاذونادر کے بارے میں ایسا نہ کہا جائے کیونکہ ان طبقوں کے لوگ بھی بہر حال غیر" معصوم " انسان تھے ۔ پھر ان تینوں طبقوں میں سے بھی طبقہ اول یاقرن اول کے لوگ یعنی " صحابہ کرام " کی عظمت ومنزلت کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ، ان کی تعظیم وتکریم کرنا ہر امتی پر لازم ہے ۔ یہ حکم ان کی زندگی میں بھی ہر مسلمان کے لئے تھا اور ان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہا اور قیامت تک اسی طرح باقی رہے گا ، کوئی شخص علم وفضل ذہانت وذکاوت تقوی وپرہیزگاری اور عزیمت واستقامت کے کتنے ہی بلند سے بلند ترمقام پر پہنچے جائے مگر وہ " صحابی رسول " کاہمسر نہیں ہوسکتا ، صحابی رسول کاناقد نہیں بن سکتا اور صحابہ رسول کے عمل وکردار کی نکتہ چینی نہیں کرسکتا اگر کوئی شخص ایسی جرأت کرتا ہے تو وہ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتا ہے اور صحابہ رسول کی عزت وحرمت مجروح کرنے کے سبب اپنا ایمان خطرہ میں ڈالتا ہے ۔ بلاشبہ صحابہ کرام امت کے وہ سب سے برگزیدہ اور نیک ترین فرد ہیں جو بار گارہ رسالت کے مصاحب خادم اور حاضر باش تھے ۔ جو ذات رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کے براہ راست خوشہ چین اور تربیت یافتہ تھے ، ان میں سے جن لوگوں کو صحبت وخدمت کا شرف حاصل نہیں ہوا اور محض جمال باکمال کے دیدار ہی کی سعادت سے بہروہ ہوئے۔ ان کا مقام بھی امت کے بڑے سے بڑے عالم وفاضل عابد وزاہد اور غازی ومجاہد سے بڑھ کر ہے ، شیخ ابوطالب مکی نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ : جمال رخ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے والی ایک نظر سے اتنا کچھ حاصل ہوجاتا تھا اور مطلب براری کی وہ دولت مل جاتی تھی جو اوروں کو بڑے بڑے چلوں اور خلوتوں سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی، ایمان عیانی اور یقین شہودی کا جو مقام ان کو نصیب تھا۔ اس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں تھا ۔
" اس کے بعد جھوٹ ظاہر ہو جائے گا " یعنی ان تینوں زمانوں میں تو دین اپنی اصلی حالت میں رہے گا اور اخلاص وللہیت سے سارے کام انجام پاتے رہیں گے ، لیکن قرن ثالث یعنی تبع تابعین کے زمانہ کے بعد جو زمانہ آئے گا وہ دین ودیانت کے لئے محفوظ ومامون نہیں ہوگا ۔گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تبع تابعین کے قرن کے خاتمہ کے بعد بدعات اور نفسانی خواہشات وجذبات کی کار فرمائی کا دور شروع جائے گا اگرچہ غیراسلامی افکار ونظریات کے حامل لوگوں جیسے معتزلہ ، ریہ اور مرجیہ وغیرہ کا ظہور وشیوخ اور بعد کے زمانوں میں ہوا لیکن ان سے پہلے بدعات اور خود رائی کا ظہور وشیوع ہو چکا تھا ۔
" جماعت کو لازم پکڑے " میں جماعت سے مراد ملت کا سواد اعظم ہے ۔ مطلب یہ کہ دینی وملی مسائل ومعاملات میں انہی اصول وتعلیمات کو راہنما بنایا جائے ، جو جمہور صحابہ وتابعین اور سلف صالحین سے منقول ہیں اور انہی کی متابعت اختیار کی جائے ان سے صرف نظر کر کے خود رائے بننا اپنے آپ کو شیطان کا کھلونا بنانا ہے ، پس اس حکم میں صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کی محبت اور ان کی تعظیم وتوقیر بھی شامل ہے ۔
" وہ مؤمن ہے " یعنی کامل کی علامت یہ ہے کہ نیکی کرنے سے خوش ومطمئن ہو اور اگر بدی وجود میں آئے تو رنجور وناخوش ہو۔ اسی بات کو علماء نے دل کے زندہ وحساس ہونے کی علامت قرار دیا ہے ، چنانچہ جو شخص نہ تو نیکی سے خوش ہوتا ہے اور نہ بدی سے ناخوش ومضطرب ہوتا ہے وہ ایسے انسان کی مانند ہے جس کا دل مرچکا ہو ، جس کے احساسات فنا ہوچکے ہوں ، جیسا کہ منافق جو قیامت وآخرت کے عقیدہ سے خالی ہوتا ہے ۔ اس کے نزدیک نیکی اور بدی دونوں برابر ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
ولاتستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ۔
" اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی "