ایک اعتراض اور اس کا جواب
راوی:
ہوسکتا ہے کوئی رافضی یہ اعتراض کرے کہ مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں اس بات کو آسان نہیں بتایا گیا ہے کہ شیخین کو برا کہنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے ، نیز صاحب جامع الاصول اور صاحب مواقف نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے ، اسی طرح ابوالحسن اشعری اور امام غزالی نے بھی اس کو مناسب نہیں سمجھا کہ اہل قبلہ کو کافر کہا جائے ، لہذا جو لوگ شیعوں کو کافر کہتے ہیں ان کا قول سلف اہل سنت کے موافق نہیں ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ ان بزرگان امت اور اساطین علم نے شیعوں کی تکفیر میں احتیاط کا دامن تھاما ہے اور اس فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں تامل کیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان حضرات نے شیعوں کے تمام عقائد ونظریات اور ان کے احوال ومعاملات پوری طرح جاننے کے باوجود ان کی تکفیر سے اعراض کیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کے ذہن میں شیعیت کامسئلہ پوری طرح واضح نہیں تھا اور شیعوں کے بارے میں اسی خیال ونظریہ کا اظہار کیا جو ان کے اس وقت کے علم اور معلومات کے مطابق اور اس طرح کی بہت نظیریں ملتی ہیں کہ جلیل القدر صحابہ تک کو بعض مسائل میں اشتباہ ہوا اور ان کا قول یا عمل ان کے مسائل کے حقیقی پہلو سے مختلف ظاہر ہوا مثال کے طور پر حضرت عبداللہ ابن مسعود کو نماز میں اطباق یدین کے مسئلہ میں اشتباہ کا ہونا یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بیع امہات اولاد کے اور زندیقون کو آگ میں جلادینے کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا اور یا حضرت عمر فاروق کو جنبی کے تیمم کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا پس مذکورہ بالا بزرگوں کی نظر، محض اس بات پر گئی کہ شیعہ اہل قبلہ اور کلمہ گوہیں اور اسی بناء پر انہوں نے ان کی تکفیر سے احتیاط برتی ، اگر ان کے علم میں شیعوں کے وہ تمام عقائد اور حالات تفصیل کے ساتھ آجاتے جوان کے اہل قبلہ اور کلمہ گو ہونے کے صریح منافی ہیں اور جو کسی بھی شخص کی تکفیر کے لئے واضح ثبوت اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں تویقینا وہ بزرگ بھی ان کی تکفیر کے قائل ہوتے جب خلیفۃ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق نے زکوۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کرنے والے کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اور حضرت علی نے ان لوگوں کے کلمہ گو ہونے ہی کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کی سفارش کی اور کہا کہ ہم ان لوگوں کے خلاف جنگ وقتال کیسے کرسکتے ہیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ ۔
مجھے (پروردگار کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہیں ۔
حضرت ابوبکر نے پورے عزم کے ساتھ جواب دیا کہ میں ہر اس شخص کے خلاف جنگ وقتال کروں گا جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے گا ( اور اس کی کلمہ گوئی میرے ارادہ میں حائل نہیں ہوگی) حضرت عمر بولے میں نے دیکھ لیا کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شرح صدر عطا فرمادیا ہے اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حق وہی ہے جو ابوبکر کہہ رہے ہیں یہ بھی احتمال ہے کہ محولہ بالا بزرگوں نے اپنے اقوال ونظریات کا اظہار ان شیعوں کے بارہ میں فرمایا ہو جو اس زمانہ میں ایسے برے اور فاسد عقائد واحو ال نہیں رکھتے تھے جیسے بعد میں شیعوں اور رافضیوں نے اختیار کرلئے ۔ اس کی تائید مرقاۃ میں ملا علی قاری کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ :
قلت وہذا فی حق الرافضۃ والخارجۃ فی زماننا کانہم یعتقدون کفر اکثر اکابر الصحابۃ فضلا من سائر اہل السنۃ والجماعۃ فہم کفر بالاجماع بلانزاع ۔
" میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہمارے زمانہ کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ میں سے اکثر کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔"