صحابہ کو برا نہ کہو
راوی:
عن أبي سعيد الخدري قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه " . متفق عليه
" اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میرے صحابہ کو برا نہ کہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مد یا آ دھے مد کے ثو کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
تم " کے مخاطب خود صحابہ میں کے بعض حضرات تھے ، جیسا کہ ایک روایت میں اس ارشاد گرامی کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت خالد ابن ولید اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف کے درمیان کوئی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور حضرت خالد ابن ولید نے حضرت عبدالرحمن ابن عوف کو برا کہا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد ابن ولید وغیرہ کو خطاب کرکے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو پس " میرے صحابہ " سے وہ مخصوص صحابہ مراد ہیں جو ان مخاطب صحابہ یعنی حضرت خالد ابن ولید وغیرہ سے پہلے اسلام لائے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں " تم " کے ذریعہ پوری امت کو مخاطب کیا گیا ہو اور چونکہ نور نبوت نے پہلے ہی یہ دیکھ لیا تھا کہ آگے چل کر میری امت میں لوگ بھی پیدا ہوں گے ، جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہیں گے ، ان کی شان میں گستاخیاں کرے گے (جیسا کہ روافض وخوارج کی صورت میں مختلف گروہ ایک دوسرے کے ممدوح صحابہ کے حق میں سب وشتم کرتے ہیں ) اس لے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں میں احترام صحابہ کے جذبات کو بیدار کرنے کے لئے حکم دیا کہ شخص میرے کسی صحابی کو برا نہ کہے ۔
مد اس زمانہ کے ایک پیمانہ کا نام تھا جس میں سیر بھر کے قریب جو وغیرہ آتا تھا ، حدیث کے اس جزء کی مراد ان صحابہ کے بلند وبالا مقام ومرتبہ کا تعین کرنا ہے کہ ان لوگوں کے کمال اخلاص وللٰہیت کی بناء پر ان کا چھوٹا سانیک عمل اپنے بعد والوں کے اسی طرح کے بڑے سے بڑے نیک عمل پر بھاری ہے مثلا اگر ان صحابہ میں سے کوئی شخص سیر بھر یا آدھ سیر جو وغیرہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس عمل پر ان کو جنتا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب ان کے بعد والوں کو اس صورت میں بھی نہیں مل سکتا کہ اگر وہ اللہ کے راہ میں احد پہاڑ کے برابر سوناخرچ کردیں اور یہ اس وجہ ہے کہ اخلاص وصدق نیت اور جذبہ ایثار وللٰہیت کا جو کمال ان کے اندر تھا وہ بعد والوں کو نصیب نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ ان کا مال خالص طیب وپاکیزہ ہوتا تھا ، اور ان کی اپنی حاجتیں وضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کریں لیکن اس کے باوجود اپنی استطاعت کے مطابق وہ اللہ کی راہ میں خوش دلی کے ساتھ خرچ کرتے اور اپنی تمام ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ، یہ تو ان کے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے اجر وثواب کا ذکر ہے۔ اسی پر قیاس کرکے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے انتہائی سخت حالات میں اللہ کے دین کا جھنڈا بلند کرنے اور اللہ کے رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے ریاضت وجاہدہ کے جن سخت ترین مراحل کو طے کیا ۔ یہاں تک کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کی بناء پر ان کو کیا اجروثواب ملا ہوگا اور ان کے درجات ومراتب کس قدر بلند ہوئے ہوں گے ۔ حدیث کے پہلے جزء سے اگرچہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی" میرے صحابہ کو برا نہ کہو" مخصوص اصحاب کے حق میں ہے لیکن اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ کسی غیرصحابی کا صحابی کو برا کہنا بطریق اولی ممنوع ہے ۔ کیونکہ حدیث اصل مقصد ان لوگوں کے حق میں بد گوئی اور بد زبانی سے اجتناب کی تلقین وہدایت کرنا ہے۔ جن کو قبول اسلام میں سبقت کی فضیلت وبرتری حاصل ہے اور جو اپنی اس فضیلت وبرتری کو بناء پر بعد والوں کے لئے یقینا واجب التعظیم ہیں ۔علی ابن حرب طائی اور خثیمہ ابن سلیمان نے حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ :
لاتسبوا اصحاب محمد فلمقام احدہم ساعۃ خیر من عمل احدکم عمرہ ۔
" اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برا نہ کہو ، درحقیقت ان کو (اپنی عبادتوں کا ) یہ مقام حاصل ہے کہ ان کا ساعت بھر کانیک عمل تمہارے پوری عمر کے نیک عمل سے بہتر ہے ۔"
اور عقیلی نے ضعفا میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان اللہ اختارلی اصحابا وانصار ا واصحارا وسیاتی قوم یسبونہم ولیستنقصونہم فلاتجالیسوہم ولاتشاربوہم ولا تواکلوہم ولاتناکحوہم ۔
" حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لئے میرے اصحاب میرے انصار اور میرے قرابتدار تجویز ومقرر کئے گئے ۔ اور (یاد رکھو، عنقریب کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو میرے صحابہ کو برا کہیں گے اور ان میں نقص نکالیں گے ، پس تم نہ ان لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اختیار کرنا نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا ۔"