ابن صیاد کے قصہ کا بیان
راوی:
مشکوٰ ۃ کے اکثر قابل اعتماد نسخوں میں یہاں ابن صیاد ہی لکھا ہے ، لیکن بعض نسخوں میں " ابن الصیاد " نقل کیا گیا ہے ۔
ابن صیاد کی حقیقت : ابن صیاد کا اصل نام " صاف " تھا اور بعض حضرات نے " عبداللہ " کہا ہے وہ ایک یہودی تھا جو مدینہ کا باشندہ تھا یا اصل باشندہ تو کہیں اور کا تھا لیکن مدینہ آکر وہاں کے یہودیوں میں شامل ہوگیا تھا ! ابن صیاد سحر وکہانت کا زبردست ماہر تھا اور اس وجہ سے اس کی شخصیت بڑی پراسرار بن کر رہ گئی تھی اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اس کی حقیقت کو مختصر طور پر یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بڑا فتنہ تھا جس میں مسلمانوں کو مبتلا کر کے ان کا امتحان لیا گیا تھا اس کے حالات بڑے مختلف تھے اور اس بنا پر صحابہ کرام کے درمیان بھی اس کی حیثیت کے تعین میں اختلاف تھا، چنانچہ کچھ صحابہ کرام کا خیال یہ تھا ابن صیاد وہی دجال ہے جس کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اہل ایمان کو گمراہ کرے گا لیکن اکثر حضرات کا کہنا یہ تھا کہ ابن صیاد بڑا دجال تو نہیں ہے لیکن ان چھوٹے دجالوں میں سے ایک ضرور ہے جو مختلف زمانوں میں پیدا ہوتے رہیں گے اور جن کا اصل مقصد فتنہ وفساد پھیلانا اور لوگوں کو گمراہ کرنا ہوگا ! جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ اس امت میں دجال پیدا ہوتے رہیں گے، جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے آخر الذکر حضرات کی دلیل یہ ہے کہ ابن صیاد اگرچہ پہلے کافر وکاہن تھا لیکن آخر میں مسلمان ہوگیا تھا، پھر اس نے حج بھی کیا مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوا، اس کی اولاد بھی ہوئی اور وہ مدینہ و مکہ میں رہا کرتا تھا جب کہ دجال کافر ہوگا اور کفر ہی کی حالت میں مارا جائے گا اس کے اولاد نہیں ہوگی، اور مکہ و مدینہ میں اس کا داخلہ تک ممنوع ہوگا چہ جائیکہ وہ ان مقدس شہروں میں بود و باش اختیار کرے حضرت تمیم داری کی اس حدیث کو بھی ان حضرات کی پوری دلیل قرار دیا جا سکتا ہے جو دجال کے سلسلہ میں پیچھے گزر چکی ہے ! بہر حال ابن صیاد کی حیثیت وحقیقت مبہم تھی، اس کے بارے میں تعین و یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے ، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اس بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اصل حیثیت پر سے پردہ نہیں اٹھایا بلکہ اس کو مبہم رکھا جیسا کہ اس باب میں منقول احادیث سے معلوم ہوگا ۔