خلافت وامارت قریش کو سزاوار ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الملك في قريش والقضاء في الأنصار والأذان في الحبشة والأمانة في الأزد " يعني اليمن . وفي رواية موقوفا . رواه الترمذي وقال : هذا أصح
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " خلافت وبادشاہی قریش میں ہے، قضاء انصار میں اذان حبشیوں میں ہے، امانت ازد (یعنی شنود) میں ہے (جو یمن کا ایک قبیلہ ہے یا یہ کہ) ازد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تمام اہل یمن تھے ایک روایت میں ہے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موقوف حدیث کے طور پر منقول ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو اس روایت کو کے عاقل ہیں کہا ہے کہ یہی بات زیادہ صحیح ہے (یعنی سند کے اعتبار سے وہ روایت زیادہ صحیح ہے جو حدیث موقوف کے طور پر نقل ہوئی ہے) '۔"
تشریح :
" قضا " سے مراد " نقابت " ہے نقابت کے معنی ہیں نقیب بننا، یعنی نگران حال، خبر رکھنے والا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ العقبہ میں انصار کی ہر شاخ وقبیلہ کا ایک نقیب مقرر کر دیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کرے لوگوں کو سمجھا بجھا کر اسلام کی طرف مائل کرے اور جو لوگ مسلمان ہوجائیں ان کے حالات و معاملات کا نگران رہے چنانچہ ان نقیبوں نے اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی ہوشیاری اور پوری تندہی کے ساتھ انجام دیا اور دربار رسالت سے تعریف وتحسین کے مستحق قرار پائے ۔
اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قضاء کا لفظ اپنے معروف معنی ہی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو جو جلیل القدر صحابی ہیں ، یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا ، یہ قول زیادہ واضح اور زیادہ قرین قیاس ہے۔
" اذان حبشیوں میں ہے" کا مطلب یہ تھا کہ اذان دینے کی خدمت حبشی لوگ زیادہ عمدگی اور زیادہ موزونیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سامنے رکھ فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذنوں کے سردار تھے اور وہ حبشی تھے ۔
" امانت ازد میں ہے " میں ازد " کے لفظ سے کیا مراد ہے اس بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے یمن کا وہی مشہور قبیلہ مراد ہے جس " ازدشنوہ کہا جا تا ہے اور ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ امانت کی ذمہ داری نہایت اطمینان بخش طور پر قبیلہ ازد شنوہ کے یمنی لوگ انجام دیتے ہیں اور دوسرا قول اس راوی کا ہے کہ جنہوں نے روایت میں یعنی الیمن کے الفاظ کا اضافہ کر کے یہ بتایا ہے کہ " ازد" سے یمن کا صرف ایک قبیلہ " ازد شنوہ " مراد نہیں ہے بلکہ بالعموم تمام اہل یمن مراد ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اہل یمن کے بارہ عمومی طور پر فرمایا گیا ہے کہ وہ رقیق القلب ہیں اہل امن اور اہل ایمان ہیں ۔
بہرحال حدیث کا مجموعہ حاصل یہ ہے کہ ان مناصب یعنی قضایا نقابت ، مؤذنی اور امانت کے لئے افراد کا انتخاب کرتے وقت مذکورہ قبائل کے لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ان قبائل کے لوگوں میں ان مناصب کی ذمہ داری وخدمت انجام دینے کی مخصوص صلاحیت اور اس سلسلہ میں ان کو ایک خاص نسبت حاصل ہے ۔