مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق ۔ حدیث 598

اہل عرب سے فریب ودغابازی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت خاص سے محرومی کا باعث ہے

راوی:

وعن عثمان بن عفان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من غش العرب لم يدخل في شفاعتي ولم تنله مودتي " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث حصين بن عمر وليس هو عند أهل الحديث بذاك القوي

اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اہل عرب سے فریب ودغابازی کرے گا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور نہ اس کو میری دوستی کی سعادت حاصل ہوگی ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس روایت کو ہم حصین ابن عمر کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں جانتے اور محدیثن کے نزدیک وہ (حصین ابن عمر ) اس درجہ کے قوی نہیں ہیں ۔" (ترمذی )

تشریح :
غش (فریب ودغابازی ) کا مطلب ہے ، دھوکا دینا ، دل میں تو کچھ ہو مگر زبان سے کچھ اور کہنا خیرخواہی نہ کرنا ، کینہ رکھنا اور کسی کو اس بات پر ابھارنا جو اس کے مفاد ومصلحت کے خلاف ہو" شفاعت " سے شفاعت صغریٰ یعنی " خصوصی شفاعت " مراد ہے نہ کہ شفاعت کبریٰ جو بہرحال ہر ایک امتی کے لئے ہوگی ۔" دوستی کی سعادت حاصل نہ ہونے سے یا تو یہ مراد تھی کہ اس شخص کو کبھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا کہ میں اس کو اپنا دوست رکھوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ : اس شخص کو کبھی یہ سعادت حاصل نہیں ہوسکتی کہ وہ مجھے اپنا دوست ومحبوب رکھے بہرحال دونوں صورتوں میں مراد نفی کمال ہے ۔
" اور وہ اس درجہ کے قوی نہیں ہیں " امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہوا کہ عمران ابن حصین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ چونکہ روایت حدیث میں " قوی " نہیں سمجھے جاتے اس لئے ان کی روایت کردہ یہ حدیث " ضعیف " کہلائے گی ، لیکن اول تو یہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث بھی معتبر مانی جاتی ہے دوسرے یہ کہ اس روایت کی تائید ان بہت سی حدیثوں سے ہوتی ہے جو تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ، مثلا حاکم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ۔
حب العرب ایمان وبغضہم نفاق ۔
" اہل عرب کی دوستی ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے "
طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے :
حب قریش ایمان وبغضم کفر وحب العرب ایمان وبغضم کفرفمن احب العرب فقد احبنی ومن ابغض العرب فقدابغضنی ۔
" قریش سے دوستی رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے نیز عرب سے محبت رکھنا ایمان ہے ، عرب سے بغض رکھنا کفر ہے پس جس نے عرب سے محبت رکھی اس نے درحقیقت مجھ سے محبت رکھی اور جس نے عرب سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا ۔" ۔
علامہ طبرانی نے کبیر میں حضرت سہل ابن سعد سے یہ حدیث نقل کیا ہے :
احبوا قریشافانہ من احبہم احبہ اللہ ۔
" قریش کو دوست رکھو کیونکہ جس نے قریش کو دوست رکھا اس کو اللہ دوست رکھے گا ۔"
حاکم مستدرک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ :
احبوالفقراء وجالسوہم واحبواالعرب من قلبک ویسرک من الناس ماتعلم من نفسک ۔
فقراء و مساکین سے محبت رکھو اور ان میں بیٹھا کرو اور اہل عرب سے دلی محبت رکھو اور چاہئے کہ وہ عیوب کہ جو تم خود اپنے میں پاتے ہو تمہیں دوسروں کی گیری سے باز رکھیں ۔"

یہ حدیث شیئر کریں