قریش میں سے بارہ خلفاء کا ذکر
راوی:
وعن جابر بن سمرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " لا يزال الإسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفة كلهم من قريش " . وفي رواية : " لا يزال أمر الناس ماضيا ما وليهم اثنا عشر رجلا كلهم من قريش " . وفي رواية : " لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة أو يكون عليهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش " . متفق عليه
اور حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا " اسلام کو بارہ خلفاء تک قوت وغلبہ حاصل رہے گا اور سب قریش میں سے ہوں گے " ایک روایت میں یوں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) لوگوں کے (دینی ومذہبی امور میں استقامت ملی وملکی معاملات میں استحکام اور عام نظم ونسق میں عدل وانصاف اور حق وراستی پر مبنی ) نظام کار کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ ان کے حاکم وہ بارہ شخص ہوں گے جن کا تعلق قریش سے ہوگا " اور ایک روایت میں یوں ہے کہ " ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آئے اور لوگوں پر ان بارہ خلیفہ کی حکومت قائم ہوگی جو قریش میں سے ہوں گے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
اس حدیث کے معنی و مفہوم کے تعین میں مختلف اقوال بھی ہیں اور علماء نے اشکال کا اظہار بھی کیا ہے ۔ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر جو بات مفہوم ہوتی ہے وہ یہ کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متصلا یکے بعد دیگرے بارہ خلفاء ہوں گے جن کے زمانہ خلافت میں دین کا نظام مستحکم وبرقرار رہے گا ، ان کے وجود سے اسلام کوشان وشوکت حاصل ہوگی ، اور نہ صرف یہ کہ خود وہ تمام بارہ خلفاء دین ومذہب کے سچے پابند وتابعدار ہوں گے بلکہ ان کی خلافت وعدالت سے حق وانصاف کے مطابق احکام وہدایات کا اجراء ونفاذ ہوگا حالانکہ تاریخی اور واقعاتی طور پر جو کچھ پیش آیا ہے وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتا ۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب خلافت وامارت پر فائز ہونے والوں میں بنی مروان میں کہ وہ خلفاء وامراء بھی تھے جو نہ صرف یہ کہ اپنی سیرت اور طور طریقون کے اعتبار سے دین ومذہب سے مناسبت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی ظالمانہ اور مفسدانہ کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کوشدید نقصانات اور مصائب برداشت کرنا پڑے علاوہ ازیں وہ صحیح حدیث بھی ہے جس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت کانظام قائم رہے گا اور اس کے بعد ظلم وزیادتی پر مبنی بادشاہت آجائے گی " چنانچہ تمام علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیس برس کے عرصہ یعنی خلافت راشدہ کے بعد جو نظام حکومت ظاہر ہوا اس کو خلافت نہیں بلکہ بادشاہت وامارت کہنا چاہئے یہ ایک اہم اشکال ہے اور اسی بناء پر علماء کرام نے اس حدیث کی توجیہ وتاویل میں مختلف اقوال پیش کئے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ " بارہ خلیفوں " سے مراد وہ بارہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سریر آرائے خلافت اور حکومت وسلطنت ہوئے اور ان کے زمانہ اور اقتداروحکومت میں مسلمانوں کے ظاہری حالات ومعاملات اور رعایا کے مفاد کے اعتبار سے سلطلنت وحکومت کا نظام مستحکم ومتوازن رہا اگرچہ ان میں سے بعض برسر اقتدار لوگ ظلم و بے انصافی کے راستہ پر بھی چلے، باہمی اختلاف ونزاع اور خرابیوں کا بھیانک ظہور ولید بن یزید بن عبد الملک بن مروان کے عہد اقتدار میں ہوا جو ان میں بارہواں شخص تھا ، اس شخص کی امارت اس وقت قائم ہوئی جب اس کے چچا ہشام ابن عبد الملک کا انتقال ہوا پہلے تو لوگوں نے ولید ابن یزید کی امارت پر اتفاق کیا اور ان کا اتفاق چار برس تک قائم رہا لیکن چار برس کے بعد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو مار ڈالا ، اس دن سے صورت حال میں تغیر پیدا ہوگیا اور فتنہ وفساد پوری طرح پھیل گیا یہ قول قاضی عیاض مالکی کی طرف منسوب ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کی تحسین کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی جتنی توجیہات کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ مناسب اور سب سے زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید ان الفاظ سے ہوتی ہے جو اسی حدیث کے جزء کے طور پر بعض صحیح طرق میں منقول ہیں کہ کلہم یجتمع علیہ امر الناس " اور " جمع " سے مراد ان خلفاء کی بیت پر لوگوں کا اتفاق واجتماع اور ان کی قیادت وسرداری کو قبول کرنا ہے اگرچہ کراہت کے ساتھ ہو۔ نیز اس حدیث سے ان خلفاء کی جو مدح وتوصیف مفہوم ہوتی ہے وہ دین عدالت، اور حقانیت کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ سیاسی وانتظامی معاملات میں استحکام واستواری اور حکومت وامارت کے تئیں اتفاق واتحاد کے اعتبار سے ہے رہی اس صحیح حدیث کی بات جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کو تیس سال میں منحصر بیان فرمایا ہے تو وہاں خلافت سے مراد خلافت کبریٰ ہے جو اصل میں خلافت نبوت ہے جب کہ اس حدیث میں خلافت امارت " مراد ہے چنانچہ خلفائے راشدین کے بعد جو امراء (سربراہان حکومت ) گذرے ان کو بھی خلیفہ ہی کہا جاتا ہے ، اگرچہ ان کو خلیفہ کہنا مجازی معنی کے اعتبار سے ہے مذکورہ بالا پہلے قول کو اگرچہ علامہ ابن حجر نے اولی وارجح قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ لایزال الاسلام عزیزا اور لایزال الدین قائما کے ساتھ یہ قول کھلی ہوئی عدم مناسبت کا حامل ہے کیونکہ یہ الفاظ ان بارہ خلفاء کی اس مدح وتعریف کا صریح مظہر ہیں کہ ان کے زمانہ خلافت وامارت میں دین کو استحکام حاصل رہے گا حق کا بول بالا ہوگا اور ان کے عدل وانصاف کے ذریعہ اسلام کی شان وشوکت اور قوت کا اظہار ہوگا ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ " خلفاء" سے مراد عادل وانصاف پرور خلفاء اور نیک طینت وپاکباز امراء ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف حمیدہ کی بناء پر " خلافت " کاصحیح مصداق اور منصب امارت کے اہل ہوں، اس صورت میں حدیث کا لازمی مطلب یہ بیان کرنا نہیں ہوگا کہ یہ بارہ خلفاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد متصلاً یکے بعد دیگرے منصب خلافت وامارت پر متمکن ہوں گے جب کہ ہوسکتا ہے کہ اصل مقصد اس طرح کے خلفاء وامراء کی محض تعداد بیان کرنا ہو خواہ ان کا ظہور کسی بھی عہد وزمانہ میں ہو اور بارہ کا عدد قیامت تک کسی وقت جا کر پوراہو تورپشتی کے مطابق اس حدیث اور اس بارہ میں منقول دوسری احادیث کے مفہوم ومعنی کے تعین میں یہی قول زیادہ بہتر ومناسب اور قابل ترجیح ہے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں اس طرح کے ان بارہ خلفاء وامراء کا ذکر مراد ہے جو حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ کے بعد منصب خلافت وامارت پر فائز ہوں گے گویا مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش خبری فرمائی کہ آخر زمانہ میں قریش سے نسبی تعلق رکھنے والے ایسے بارہ افراد مسلمانوں کی ملی وملکی اور حکومتی قیادت کے امین بنیں گے جن کے زمانہ اقتدار وامارت میں دین ومذہب کو عروج حاصل ہوگا اور اسلام کی شان وشوکت دوبالا ہوگی ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب مہدی کا انتقال ہوگا تو قیادت واقتدار کے مالک ، یکے بعد دیگرے جو پانچ آدمی ہوں گے وہ سبط اکبر یعنی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہوں گے ، ان کے بعد قیادت واقتدار کی باگ ڈور یکے بعد دیگرے ان پانچ آدمیوں کے ہاتھ میں آئے گئی جو سبط اصغر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان میں آخری شخص اپنا ولی عہد ایسے شخص کو بنائے گا جو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں ہوگا اور مملکت وملت کی امامت وسربراہی کے سلسلہ کا گیارہواں فرد ہوگا پھر جب یہ گیارہواں شخص اپنا زمانہ اقتدار پورا کرکے انتقال کرے گا تو اس کا جانشین اس کا بیٹا ہوگا اور مسند اقتدار کا مالک بنے گا ، اس طرح بارہ کا عدد پورا ہوجائے گا اور ان بارہ میں کا ہر شخص امام عادل اور ہادی مہدی ہوگا جس کی عدالت انصاف پسندی ، دینداری اور رعایا سے اسلام اور مسلمانوں کوزبردست شان وشوکت اور سربلندی وہردلعزیزی حاصل ہوگی اگر یہ حدیث صحیح ہے تو پھر مذکورہ بالا دوسرے قول کو ایک معقول اور بہترین توجیہ قرار دیا جاسکتا ہے ویسے ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بھی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت امام مہدی کے اوصاف ومحاسن بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (امام مہدی ) کے وجود سے ہررنج وفکر کو دور کر دے گا اور ان کے عدل وفتنہ کا سد باب ہوجائے گا ان کے زمانہ کے بعد پھر قیادت واقتدار کی باگ ڈور ان بارہ آدمیوں کے ہاتھ میں آجائے گی جو یکے بعد دیگرے ڈیڑھ سو سال تک مملکت کی زمام کار سنبھالے رہیں گے ۔
اور چوتھا قول یہ ہے کہ اصل مراد ایک ہی زمانہ میں بارہ خلفاء کا پایا جانا ہے جو اپنی اپنی جگہ خود مختیار حیثیت کا دعوی کریں گے اور ان میں سے ہر ایک کی اطاعت کرنے والے لوگوں کا الگ الگ گروہ ہوگا اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ (ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ) وہ وقت آنے والا ہے جب میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور بہت ہونگے " اس ارشاد گرامی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد یہ خبر دینا تھا کہ میرے بعد نت نئے فتنوں کا ظہور ہوگا اور طرح طرح کے اختلافی ونزاعی معاملات اٹھ کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ ایک زمانہ میں بارہ خلفاء اپنی الگ الگ خلافت کا دعویٰ کریں گے اس آخری قول کے مطابق حدیث کی مراد گویا یہ ہوگی کہ بیک وقت بارہ خلفاء کے وجود کے زمانہ سے پہلے کے زمانہ تک تو مسلمانوں کی موثر اجتماعی وتنظیمی حیثیت برقرار رہے گی دین کا نظام مستحکم واستوار رہے گا اور اسلام کی عزت وشوکت بڑھتی رہے گی لیکن اس زمانہ میں (جب کہ بیک وقت بارہ خلفاء ہوں گے ) اختلاف ونزاع کا فتنہ پھوٹ پڑے گا اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی منتشر ہونے لگے گی ۔ لیکن پہلے اقوال کے مطابق حدیث کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بارہ خلفاء کے زمانہ تک اسلام اور مسلمانوں کانظام ملک وملت مستحکم واستوار رہے گا اس نظام میں جو خلل واضطراب پیدا ہوگا وہ اس زمانہ کے بعد ہوگا ۔
شیعوں نے اس حدیث میں بارہ خلفاء کے ذکر کو اس پر محمول ومنطبق کیا ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہوں گے خواہ وہ منصب خلافت پر حقیقۃ فائز ہوں خواہ خلافت کا استحقاق رکھنے کے باوجود منصب خلافت پر فائز نہ ہوسکیں ان شیعوں کے مطابق سب سے پہلے خلیفہ حضرت علی ہیں ، پھر حضرت حسن ، پھر حضرت حسین، پھر حضرت زین العابدین، پھر حضرت محمد باقر، پھر حضرت جعفر صادق، پھر حضرت موسی کا ظم، پھر حضرت علی رضا، پھر حضرت محمدتقی ، پھر حضرت حسین عسکری ، پھر حضرت محمد مہدی ۔