مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 570

مرض وفات کی ابتداء

راوی:

وعنها : قالت : رجع إلي رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم من جنازة من البقيع فوجدني وأنا أجد صداعا وأنا أقول : وارأساه قال : " بل أنا يا عائشة وارأساه " قال : " وما ضرك لو مت قبلي فغسلتك وكفنتك وصليت عليك ودفنتك ؟ " قلت : لكأني بك والله لو فعلت ذلك لرجعت إلى بيتي فعرست فيه ببعض نسائك فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم بديء في وجعه الذي مات فيه . رواه الدارمي

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے قبرستان ) بقیع میں ایک جنازہ کودفن کرکے میرے پاس تشریف لائے تو مجھ کو اس حالت میں پایا کہ میں سرکے درد میں مبتلا تھی اور میں کہہ رہی تھی : ہائے میرا سر (پھٹا جارہا ہے ) آپ نے مجھے اس حالت میں دیکھ کر اور میرے یہ الفاظ سن کر فرمایا : عائشہ (تم اپنے کو کیا کہہ رہی ہو) میں کہتا ہوں کہ میرا سر درد کررہا ہے (پھر بڑے پیار سے از راہ مذاق ) آپ نے فرمایا : اس میں نقصان کیا ہے ۔ اگر تم مجھ سے پہلے مرجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا میں کفناؤں گا میں تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفناؤں گا یہ سن کر میں نے کہا اللہ کی قسم یہ تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابھی سے نظر آرہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا یعنی ایسی نوبت آئی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مرگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تجہیزوتکفین اور تدفین وغیرہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب امور سے فارغ ہو کر میرے گھر واپس آتے ہی اپنی کسی بیوی کے ساتھ شب باش ہوجائیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ان الفاظ کو سن کر جو میری غیرت وحمیت پر دلالت کرتے تھے مسکرائے اور پھر اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کا سلسلہ شروع ہوا جس میں آپ نے وفات پائی (درامی )

تشریح :
اور میں تمہیں دفناؤں گا " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر حضرت عائشہ ذات رسالت مآب کی موجودگی میں وفات پاجائیں تو یقینا ان کو سعادت وسرفرازی کا وہ خصوصی مرتبہ حاصل ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہنے اور وفات پانے کی صورت میں ان کو حاصل نہیں ہوا ۔

یہ حدیث شیئر کریں