مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 569

حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں وصیت

راوی:

وعن عائشة أنها قالت : وا رأساه قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ذاك لو كان وأنا حي فأستغفر لك وأدعو لك " فقالت عائشة : واثكلياه والله إني لأظنك تحب موتي فلو كان ذلك لظللت آخر يومك معرسا ببعض أزواجك فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " بل أنا وا رأساه لقد هممت أو أردت أن أرسل إلى أبي بكر وابنه وأعهد أن يقول القائلون أو يتمنى المتمنون ثم قلت : يأبى الله ويدفع المؤمنون أو يدفع الله ويأبى المؤمنون " . رواه البخاري

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ انہوں نے (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سردرد کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے ) کہا : ہائے میرا سر پھٹا جا رہا ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا (عائشہ !) وہ (یعنی تمہاری موت ) اگر ایسی صورت میں آئی کہ میں زندہ رہا تو تمہارے لئے (سیأات سے ) مغفرت وبخشش کی دعا مانگوں گا اور تمہارے (درجات ومراتب کی بلندی ) کے لئے بھی دعا کرونگا ، حضرت عائشہ بولیں : ہائے میرے درد کی مصیبت اللہ کی قسم میرا تو خیال ہے کہ میری موت کو پسند فرماتے ہیں ؟ اگر ایسا ہوا (کہ میں مرگئی ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن کے آخری حصہ میں اپنی کسی بیوی کے ساتھ شب باشی فرمائیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (عائشہ !چھوڑو اس بات کو اور سنو ) میرا قصد تھا ۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ میرا ارادہ تھا کہ میں (تمہارے والد ) ابوبکر اور ان کے بیٹے (یعنی تمہارے عزیز بھائی عبدالرحمن ) کو بلا بھیجوں اور ان کے حق میں وصیت کردوں تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں یا آپ نے یہ فرمایا کہ تاکہ متمنی لوگ (ابو بکر کے بجائے خود اپنے لئے یا کسی اور کے لئے خلافت کی ) تمنا کا اظہار نہ کریں ، پھر میں نے اپنے دل میں کہا خود اللہ تعالیٰ(ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت کو ) منظور نہیں کرے گا ) اور مسلمان بھی مدافعت کریں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ مدافعت کرے گا ، اور مسلمان بھی نہیں مانیں گے ۔ (بخاری )

تشریح
" ہائے میرا سر " بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت ہی کے زمانہ کا واقعہ ہے ، کسی دن حضرت عائشہ کے سر میں شدید سردرد ہوا ہوگا اور انہوں نے اس شکایت کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان الفاظ میں کیا ہوگا اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ سر سے مراد " ذات " ہے جس کے ذریعہ حضرت عائشہ اپنی موت کی طرف اشارہ کیا ۔
واثکلیا ہائے میرے سردرد کی مصیبت " لفظ ثکل (ث کے زبر اور پیش دونوں کے ساتھ ) اصل معنی لڑکے یا دوست کے مرنے کے ہیں اور یہاں اس لفظ سے حضرت عائشہ نے خود اپنی ذات مراد لی ہے ۔ کہ مرض کا ذکر موت کی یاد دلاتا ہے ویسے یہ ایک محاوراتی لفظ ہے ، جوہر اضطراب وپریشانی کے وقت اہل عرب کی زبان پر آتا ہے خواہ اس کے حقیقی معنی مراد ہوں ، یا مراد نہ ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری موت کو پسند فرماتے ہیں " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ اس ناز ونیاز اور پیارومحبت کے طور پر کہے جوان کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھا گویا حضرت عائشہ نے یہ کہا کہ میں مرگئی تو آپ کی بلا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو مجھے فورا بھلادیں گے اور اپنی دوسری بیویوں میں مشغول ہوجائیں گے ۔
" میرے سر کے درد اور میری موت کا ذکر کرو " یعنی یہ تم اپنے سرکے درد اور اپنی موت کا ذکرلے کر کیوں بیٹھ گئیں ، تمہیں تو میرے سرکے درد اور میرے بارے میں سوچنا چاہے ۔ میں جو اس دنیا سے رخت سفر باندھ رہا ہوں ، تمہیں تو ابھی بہت زندہ رہنا ہے اور میرے بعد بھی بہت زمانہ تک اس دنیا میں رہنا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ پتہ چل گیا تھا کہ درد سر دراصل میرا مرض الموت ہے جب کہ عائشہ کا درد سراتفاقی ہے اور ان کی زندگی ابھی بہت باقی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کی مرض کی اس یکسانیت میں اس کمال محبت کی طرف محبت کی طرف لطیف اشارہ ہے جوان دونوں کے درمیان تھا۔
" میرا قصد تھا " جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنی موت کا ذکر فرمایا توقدرتی طور پر اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری تھا کہ آپ کے بعد کون شخص ملت کی دینی ودنیاوی قیادت سنبھالے گا ؟چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ فرمایا اور اس کا مقصد حضرت عائشہ کی دلجوئی اور ان کو ان کے باپ کے لئے اس عظیم دولت ونعمت کی بشارت دینا بھی تھا
" تاکہ پھر کہنے والے کچھ نہ کہیں " ان یقول القائلین کا ترجمہ تویہی ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ابوبکر کو اپنا ولی عہد بنا کر ان کی خلافت کو وصیت کردینے سے پھر بعد میں لوگوں کو کچھ کہنے سننے کا موقع نہ رہے گا ۔ اور ایک ترجمہ یہ ہوگا کہ " کبھی کہنے والے کچھ کہیں " اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ میرے اس ارادہ کی بنیاد یہ تھی کہ اگر میں نے ابوبکر کے لئے خلافت کبریٰ (ملت کی دینی ودنیاوی قیادت ') کی وصیت نہ کی تو شاید لوگ یہ کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کے لئے خلافت صغریٰ (نماز کی امامت ) ہی پر اکتفا کرلیا ، ان کے لئے خلافت کبریٰ کی واضح وصیت کیوں نہ کی ، باوجودیکہ خلافت صغریٰ میں خلافت کبریٰ کا اشارہ بھی موجود ہے ۔
" پھر میں نے (اپنے دل میں ) کہا " یہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکورہ ارادہ پر عمل نہ کرنے کا سبب بیان فرمایا کہ اول تو اللہ کا فیصلہ یہی ہوگا ۔ کہ میرے بعد پہلے خلیفہ ابوبکر ہوں ۔ دوسرے یہ کہ مسلمان بھی ابوبکر کی خلافت کو برضا ورغبت قبول کریں گے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے اپنی بیماری کی حالت میں نماز کی امامت کے لئے ابوبکر کو منتخب کیا جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت عظمی (منصب خلافت ) کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی سب سے زیادہ ابوبکر میں ہے ۔ پس جب کہ تقدیر الہٰی بھی یونہی ہوگی اور عام مسلمان بھی ابوبکر کے علاوہ کسی دوسرے کی خلافت پر تیار نہیں ہوں گے ، تو میں سمجھتا ہوں کہ ابوبکر کی خلافت کے لئے باقاعدہ وصیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ خلیفہ اول ابوبکر ہی منتخب ہوئے اور جب بعض لوگوں کی طرف سے اس بارہ میں کسی قدر اختلاف رائے کا اظہار ہوا تو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے حق میں اسی خلافت صغریٰ (امامت نماز ) سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا : جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کو ہمارے دین کے معاملہ میں منتخب فرمایا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان کو اپنی دنیا کے معاملہ میں منتخب نہ کریں دراصل مسئلہ خلافت میں حضرت ابوبکر کے حق میں اس سے بڑی دلیل اور کوئی ہوبھی نہیں سکتی تھی ۔
اور مسلمان بھی نہیں مانے گے اس جملہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے بلکہ اس میں ان لوگوں کی تکفیر کی طرف بھی اشارہ ہے جو حضرت ابوبکر کی خلافت کو برحق نہیں مانتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں