مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 568

حضرت فاطمہ سے وفات کی پیش بیانی

راوی:

وعن ابن عباس قال : لما نزلت [ إذا جاء نصر الله والفتح ] دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم فاطمة قال : " نعيت إلي نفسي " فبكت قال : " لا تبكي فإنك أول أهلي لاحق بي " فضحكت فرآها بعض أزواج النبي صلى الله عليه و سلم فقلن : يا فاطمة رأيناك بكيت ثم ضحكت . قالت : إنه أخبرني أنه قد نعيت إليه نفسه فبكيت فقال لي : لا تبكي فإنك أول أهلي لاحق بي فضحكت . وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا جاء نصر الله والفتح وجاء أهل اليمن هم أرق أفئدة والإيمان يمان والحكمة يمانية " . رواه الدارمي

اور حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب سورت اذا جاء نصر اللہ والفتح نازل ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو بلایا اور ان سے فرمایا مجھ کو میری موت کی خبر دی گئی ہے حضرت فاطمہ (یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی جدائی کا احساس کرکے ) رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (میری بیٹی ) روؤ نہیں ، میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی " (یہ سن کر مارے خوشی کے ) حضرت فاطمہ ہنسنے لگیں ، (وہاں موجود ) بعض ازواج مطہرات نے حضرت فاطمہ سے اس طرح (پہلے روتے اور پھر ہنستے ) دیکھا تو پوچھا کہ فاطمہ ! یہ کیا بات ہے کہ ہم نے پہلے تو تمہیں روتے دیکھا اور ہنستے دیکھا ؟ حضرت فاطمہ بولیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مجھے یہ بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی کی موت کی خبر دے دی گئی ہے ، یہ سن کر رونے لگی تھی اور پھر جب آپ نے یہ فرمایا کہ روؤ نہیں ، میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی تو میں ہنسنے لگی ، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور (مکہ کی) فتح حاصل ہوگی اور یمن کے لوگ آگئے جو دل کے نرم ہیں ، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۔" (دارمی )

تشریح :
مجھ کو میری موت کی خبر دے دی گئی گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ سورت دراصل اس دنیا سے میری رحلت کا اعلامیہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت اور فتح کامرانی ، اور دین میں لوگوں کے جوق در جوق داخل ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی تسبیح وتحمید کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا میں میرے رہنے اور میری بعثت کا جو مقصود ہے یعنی اتمام دعوت اور تکمیل دین وہ پورا ہوگیا ہے اب مجھے تسبیح وتحمید اور ذات حق کی طرف کامل توجہ واستغراق کے ذریعہ سفر آخرت کی تیاری کرنی چاہیے
" تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملوگی " یہ الفاظ حضرت فاطمہ کی محض تسلی کے لئے نہیں تھے بلکہ ان کے سامنے اس حقیقت کی پیش گوئی کے طور پر تھے کہ میری رحلت کے بعد میرے اہل بیت میں سے جس کی موت سب سے پہلے ہوگی وہ تم ہی ہو، اور میری جدائی کا غم تمہیں زیادہ دن برداشت نہیں کرنا پڑے گا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے چھ ماہ بعد ایک روایت میں تین یا دو مہینے بعد اور ایک روایت میں ستر روز بعد ان کی وفات کا ذکر ہے ۔
" بعض ازواج مطہرات " سے مراد حضرت عائشہ مراد ہیں جیسا کہ طیبی نے لکھا ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ فقلن تو انہوں نے کہا جمع کا صیغہ حضرت عائشہ کی تعظیم شان کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ تاہم یہ بعید نہیں ہے کہ اس موقع پر حضرت عائشہ کے علاوہ کچھ دوسری ازواج مطہرات بھی موجودہوں اور ان سب نے حضرت فاطمہ کو پہلے روتے اور پھر ہنستے دیکھ کر ان سے صورت حال کے بارے میں سوال کیا ہو بلکہ ظاہری عبادت بعض یعنی ازواج النبی اور فقلن کے الفاظ سے یہی احتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے ، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے مذکورہ بات چونکہ بہت چپکے سے کہی تھی اس لئے حضرت فاطمہ کے علاوہ اور کسی نے اس بات کو نہیں سنا اور اسی لئے انہوں نے حضرت فاطمہ سے دریافت کیا ، بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت فاطمہ نے ان ازواج مطہرات کے پوچھنے پر بھی اس وقت اصل بات نہیں بتائی تھی ، بلکہ صرف یہ جواب دیا تھا کہ میرے اور رسول اللہ کے درمیان ایک راز ہے میں کسی اور کو نہیں بتاؤں گی ۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہوں نے یہ بات بتائی تھی ۔ "
" اور یمن کے لوگ آگئے " اس کے ذریعہ آپ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور ان کی قوم کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا ، نحوی طور پر وجاء اہل الیمن کا عطف جاء نصر اللہ پر ہے اور اصل میں یہ جملہ (کہ اور اہل یمن آگئے (مذکورہ سورت کے ان الفاظ ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا ، کی وضاحت وتفسیر ہے ، مطلب یہ کہ اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ نے لوگوں کو دین میں داخل ہوتے دیکھ لیا " تو لوگوں " سے مراد اہل یمن ہیں ۔
" جو دل کے نرم ہیں " یہ الفاظ آپ نے اہل یمن کی مدح وتعریف میں فرمائے کہ وہ لوگ احکام وہدایات کو بہت جلد مان لیتے ہیں ان کے دل وعظ ونصیحت سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، قبول حق کی استعداد ان میں زیادہ ہے اور قلب کی قساوت سے وہ محفوظ ہیں ۔
" ایمان یمنی ہے " یعنی ایمان کا لفظ " یمن " سے نکلا ہے جو ملک یمن سے لفظی ہی نہیں بلکہ معنوی مناسبت بھی رکھتا ہے ۔ دراصل یہ جملہ بھی اہل یمن کی مدح میں یعنی ان کے درجہ کمال کو ظاہر کرنے کے لئے ہے جو وہ ایمان واسلام اور اطاعت وانقیاد میں رکھتے ہیں ۔
" اور حکمت بھی یمنی ہے " کا مطلب یہ ہے کہ علم وحکمت کو جو حقائق اشیاء اور ان کے احوال وخواص کی معرفت سے عبارت ہے اہل یمن سے خصوصی نسبت حاصل ہے کیونکہ وہ تحقیق وجستجو کا خاص ذہن فکر رہتے ہیں ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کے ان سوالات کی طرف اشارہ فرمایا جو انہوں نے احوال مبداء ومعاد ، اور ابتدائے پیدائش کے حقائق ومعارف سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے یہ روایت جس میں ابوموسیٰ اشعری کے سوالات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب ہیں ، کتاب بدء الخلق کے شروع میں پیچھے گزر چکی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایمان اور حکمت کی نسبت یمن کی طرف اس اعتبار سے کی ہے کہ ایمان مکہ سے شروع ہوا اور مکہ تہامہ کی زمین سے ہے اور تہامہ کا تعلق یمن سے بھی ہے ، اسی لئے کعبہ کو کعبہ یمانیہ بھی کہا جاتا ہے اور بعض حضرات کا کہنایہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث تبوک میں ارشاد فرمائی جو ملک شام کا علاقہ ہے اور وہاں سے مکہ ومدینہ کی سمت وہی ہے جویمن کی ہے ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ تویمن کی طرف کیا لیکن مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ اور مدینہ سے تھی ۔ اور ابوعبید کا قول یہ ہے کہ " یمن " سے مراد انصار مدینہ ہیں جن کا اصل وطن یمن تھا ، پس انصار مدینہ کی تعریف وتوصیف کو پر زور انداز میں بیان کرنے کے لئے ایمان وحکمت کی نسبت یمن کی طرف کی گئی ہے ۔ بہرحال اس حدیث کا مقصد محض یہ ظاہر کرنا ہے کہ یمنی لوگ یمنی لوگ کامل ایمان رکھتے ہیں اور اس سے چونکہ کسی دوسرے کے ایمان کی نفی ظاہر نہیں ہوتی اس لئے حدیث اور اس روایت کے درمیان منافات نہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان فی اہل الحجاز (اہل حجاز میں ایمان ہے ) نیز اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سے یمن کے وہ کلمہ گوم مراد ہیں جو اس زمانہ میں تھے نہ کہ ہر زمانہ کے اہل ایمان یمن مراد ہیں ۔ واضح رہے کہ سیاق حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی کو جو ایک دوسری حدیث کا ٹکڑا ہے ، وہاں سے اٹھا کر یہاں نقل کردیا ہے ۔
حکمت کے معنی : حکمت کے لغوی معنی عقل ودانائی کے ہیں ، بعض حضرات کہتے ہیں حکمت ہر چیز کی حقیقت دریافت کرنے کے علم کو کہتے ہیں ۔طیبی کا قول ہے کہ حکمت کا لفظ خوب علم حاصل کرنے اور خوب عمل کرنے سے عبارت ہے ۔قرآن کریم میں " حکمت " کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا اور (حقیقت تو یہ ہے کہ ) جس کو حکمت ملی اس کو بڑی خیر کی مل گئی ۔ حضرت انس فرماتے ہیں :
الحکمۃ تزید الشریف شرفا وترفع العبد المملوک حتی تجلسہ مجالس الملوک ۔
حکمت وہ جوہر ہے جو عزت دار وشریف کی عزت وشرف کوزیادہ کرتا ہے اور ایک مملوک غلام کے مرتبہ وحیثیت کو بڑھا کر بادشاہوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کے قابل بنادیتا ہے ۔"
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے کہ حکمت کے دس حصے ہیں ان میں سے نوحصے تو عزلت یعنی گوشہ نشینی میں ہیں اور ایک حصہ خاموشی میں ۔

یہ حدیث شیئر کریں