مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 561

مدینہ غم واندوہ میں ڈوب گیا

راوی:

عن أنس قال : لما قدم رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة لعبت الحبشة بحرابهم فرحا لقدومه . رواه أبو داود وفي رواية الدارمي ( صحيح )
قال : ما رأيت يوما قط كان أحسن ولا أضوأ من يوم دخل علينا فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وما رأيت يوما كان أقبح وأظلم من يوم مات فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم
وفي رواية الترمذي قال : لما كان اليوم الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة أضاء منها كل شيء فلما كان اليوم الذي مات فيه أظلم منها كل شيء وما نفضنا أيدينا عن التراب وإنا لفي دفنه حتى أنكرنا قلوبنا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں نزول اجلال فرمایا تھا تو (تمام لوگوں نے بے پناہ خوشی ومسرت کا اظہار کیا یہاں تک کہ ) حبشیوں نے (بھی جشن مسرت منانے کے طور پر) نیزوں کے کھیل کرتب دکھائے تھے یہ (روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے ، اور دارمی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ حضرت انس نے کہا : میں نے اس دن سے زیادہ حسین اور روشن دن اور کوئی نہیں دیکھا جس دن (مدینہ میں) ہمارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے ، اور میں نے اس دن سے زیادہ برا اور تاریک دن اور کوئی نہیں دیکھا جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی " اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے کہا : جب وہ دن آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو (مدینہ) ہر چیز (یعنی درودیوار وغیرہ ) پر نور پھیل گیا جب وہ دن آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ہر چیز (غم اندوہ کی ) تاریکی میں ڈوب گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے بعد ہم نے ابھی اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑی بھی نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہی میں مشغول تھے کہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے سے ناآشنائی محسوس کرنے لگے تھے ۔

تشریح :
مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا دن نہایت حسین بھی تھا بڑا تابناک بھی ، کیونکہ وہ دن مشتاقان جمال کے لئے وصال وقرب کا دن تھا ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی تکمیل کا دن تھا ، نہ صرف یہ کہ ان کے دل ودماغ کھل اٹھے تھے بلکہ ان کے دردودیوار تک نور نبوت کی جلوہ ریزی سے جگمگا اٹھے تھے اور پھر جب وہ دن آیا کہ آفتاب نبوت اس دنیا سے رخصت ہوا تو مدینہ والوں کی دنیا اندھیری ہوگئی ہر سوغم واندوہ کی تاریکی چھاگئی کیونکہ وہ دن عشاقان جمال نبوت کے لئے فراق کا دن تھا ان کی مسرتوں اور شاد مانیوں کی جدائی کا دن تھا ۔
ایک دوسرے سے آشنائی محسوس کرنے لگے تھے ۔" مطلب یہ کہ ہمارے درمیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھ جانے اور اس دنیا سے آفتاب نبوت کے رخصت ہوجانے کے سبب ہم پر تاریکی چھائی تو ہمیں بین طور محسوس ہوا کہ ہمارے دلوں کی وہ پاکیزگی اور نورانیت جو ذات رسالت کے مشاہدہ و صحبت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی رہتی تھی اس کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور ہمارے قلوب میں صدق واخلاص اور مہر ووفا کی وہ پہلی والی کیفیت باقی نہیں رہی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں