مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 555

جب اہل مدینہ کے نصیب جاگے تھے

راوی:

عن البراء قال : أول من قدم علينا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مصعب بن عمير وابن أم مكتوم فجعلا يقرآننا القرآن ثم جاء عمار وبلال وسعد ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم ثم جاء النبي صلى الله عليه و سلم فما رأيت أهل المدينة فرحوا بشيء فرحهم به حتى رأيت الولائد والصبيان يقولون : هذا رسول الله صلى الله عليه و سلم قد جاء فما جاء حتى قرأت : [ سبح اسم ربك الأعلى ] في سور مثلها من المفصل . رواه البخاري

حضرت براء ابن حازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جوانصار مدینہ میں سے مشہور ترین صحابی ہیں ) کہتے ہے کہ (ہجرت نبوی سے قبل ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو حضرات سب سے پہلے ہمارے ہاں (مدینہ آئے وہ حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ان دونوں حضرات نے (آتے ہی ) ہمیں قرآن کی تعلیم دینا شروع کردیا تھا پھر حضرت عمار ابن یاسر ، حضرت بلال ابن رباح اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم آئے اور حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضوان اللہ کے ساتھ تشریف لائے ، ان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ ) نزول جلال فرمایا ۔ حقیقت یہ ہے کہ (اس دن جب کہ اہل مدینہ کے نصیب جاگے تھے میں نے مدینہ والوں کو آپ کی تشریف آوری پر جتنا فرحاں وشاداں دیکھا تھا اتنی وجت وشادمانی ان کو کسی (بڑی سے بڑی دنیاوی ) خوشی کے موقع پر حاصل نہیں تھی، میں نے یہاں تک دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں (مارے خوشی کے ) یہ نعرے لگا رہے تھے یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جو ہماری بستی میں تشریف لائے ہیں اور میں نے (آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مفصل ) یعنی اوساط مفصل کی ہم مثل سورتوں میں سے سورت سبح اسم ربک الاعلی سیکھ لی تھی (یایہ کہ اوساط مفصل کی دوسری ہم مثل سورتوں کے ساتھ ساتھ سورت سبح اسم ربک الاعلی بھی سیکھ لی تھی ۔" (بخاری )

تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سورت سبح اسم ربک الاعلی مکہ میں نازل ہوئی ہے ، لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سورت کی آیات قدافلح من تز کی وذکر اسم ربہ فصلی ، چونکہ صدقہ فطر کے بارے میں ہے اور صدقہ اور نماز عید کا واجب قرار دیا جانا ٢ھ واقعہ کا ہے اس لئے سورت سبح اسم ربک الاعلی کو مکی سورت کہنے پر اشکال واقع ہوسکتا ہے ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ان دو آیتوں یعنی (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14 وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰى 15 ) 87۔ الاعلی : 15-14) کے علاوہ بقیہ پوری سورت میں نازل ہوئی ہے تو پھر مذکورہ اشکال واقع نہیں ہوگا مگر حقیقت میں نہ اشکال صحیح ہے اور نہ احتمال، کیونکہ صحیح تر روایت کے مطابق یہ سورت اپنی تمام آیتوں کے ساتھ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور بعد میں مدینہ آکر جب صدقہ فطر اور نماز عید کو واجب قرار دیا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ان دونوں آیتوں کی مراد بیان فرمائی کہ ان کا مضمون دراصل صدقہ فطر اور نماز عید کی اہمیت وفضیلت کے اظہار سے تعلق رکھتا ہے دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں آیتوں مجرد مالی وبدنی عبادتوں (صدقہ و زکوۃ اور صلوٰۃ کی تلقین وترغیب ہے جس میں اصل مراد کا بیان نہیں ہے ، اس اصل کو مراد بعد سنت نے اس وقت بیان کیا جب صدقہ فطر اور نماز عید کو واجب قرار دیا گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں