یوم وفات
راوی:
چونکہ مرض الموت کی ابتداء کے دن و تاریخ اور وفات کے دن وتاریخ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس لئے تعین کے ساتھ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے دن مرض الموت میں مبتلا رہے ، چنانچہ علماء کرام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ مذکورہ اختلاف اقوال کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ یا اٹھارہ دن بیمار رہے اور علماء کرام کے معتمد قول کے مطابق ٢ربیع الاول دوشنبہ (پیر) کے دن اس دار فانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا منقول ہے کہ اس وقت جب کچھ لوگوں کو تردد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک ، جسد پاک سے پرواز کر گئی ہے یا نہیں تو حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو پہلے جعفر ابن ابوطالب کے نکاح میں تھیں اور ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور پھر ان کی وفات کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نکاح میں آگئی تھیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد پاک پر شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھا اور کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے کوچ فرماچکے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان جو مہر نبوت تھی وہ اٹھالی گئی ۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وفات کے دن میں اپنا ہاتھ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر رکھ کر دیکھا تھا اس دن کے بعد سے کئی ہفتوں تک میرے (اس ہاتھ سے مشک کی خوشبو آتی رہی حالانکہ میں ہر کھانے کے وقت (اور ویسے بھی وضو وغیرہ ) پابندی سے ہاتھ دھویا کرتی تھی ۔ اور شواہد النبوۃ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا : آپ کا حافظہ اور فہم اتنا اچھا کس طرح ہوگیا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو غسل دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکوں میں جو پانی جمع ہوگیا تھا اس کو میں نے اپنی زبان سے اٹھایا تھا اور پی گیا تھا ، اسی چیز کو میں اپنے حافظہ وفہم کی قوت کا ذریعہ سمجھتا ہوں ۔