سختی مرض
راوی:
شدید درد سر اور بخار کی صورت میں جو مرض لاحق ہوا تھا وہ بڑھتا گیا، شدت مرض سے آپ کے کرب کا یہ حال ہوتا تھا کہ بستر پر پڑے پڑے کروٹ پر کروٹ بدلتے بدلتے مگر کسی صورت چین نہیں ملتا تھا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیماری جتنی سخت ہم لوگوں یعنی انبیاء کی ہوتی ہے اتنی سخت کسی کی نہیں ہوتی اور اس میں شبہ نہیں کہ اجروثواب بھی ہمیں ہی زیادہ ملتا ہے ۔ اپنی اس بیماری کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس غلام آزاد کئے ، اور علاوہ تین روز کے پوری مدت مرض اپنے صحابہ کرم رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے رہے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سترہ نمازیں نہیں پڑھائیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آخری تلقین ونصیحت :
روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں سب سے زیادہ جس چیز کی نصیحت فرمایا کرتے تھے ان میں سے ایک تو یہ تھی کہ نماز سے غافل مت ہونا اور دوسری یہ تھی کہ اپنے غلاموں اور اپنی باندیوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرنا وفات کے دن فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ شریف سے نکل کر مسجد میں آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت میں فجر کی نماز ادا کی ، بعد نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آخری بار خطاب کیا اور فرمایا : مسلمانو!میں تم لوگوں کو اللہ حافظ کہتا ہوں اور تم سب کو اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہی تمہارے حق میں میرا خلیفہ یعنی بہتر کا رساز ہے اب چونکہ میں دنیا چھوڑ رہا ہوں اور تم سے جدا ہو رہا ہوں اس لئے تمہیں یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقویٰ (پرہیزگاری اختیار کرنا اور نیک کاری کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ۔