حضرت سعید ابن زید کی کرامت
راوی:
عن عروة بن الزبير أن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل خاصمته أروى بنت أويس إلى مروان بن الحكم وادعت أنه أخذ شيئا من أرضها فقال سعيد أنا كنت آخذ من أرضها شيئا بعد الذي سمعت من رسول الله صلى الله عليه و سلم قال وماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه و سلم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه إلى سبع أرضين فقال له مروان لا أسألك بينة بعد هذا فقال اللهم إن كانت كاذبة فعم بصرها واقتلها في أرضها قال فما ماتت حتى ذهب بصرها ثم بينا هي تمشي في أرضها إذ وقعت في حفرة فماتت . متفق عليه
وفي رواية لمسلم عن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر بمعناه وأنه رآها عمياء تلتمس الجدر تقول : أصابتني دعوة سعيد وأنها مرت على بئر في الدار التي خاصمته فوقعت فيها فكانت قبرها
حضرت عروہ ابن زبیر بن العوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو اونچے درجہ کے تابعین میں سے ہیں اور " عشرہ مبشرہ " میں کے ایک مشہور صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ (ایک عورت ) اروی بنت اوس کو حضرت سعید بن زید بن عمرو ابن نفیل سے مخاصمت ہوئی اور ان کے خلاف استغاثہ لے کر مروان ابن حکم کی عدالت میں گئی (جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، اروی نے دعوی کیا کہ سعید ابن زید نے میرا ایک قطعہ زمین (زبردستی دبالیا ہے حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعوی سن کر اس کو بعید از امکان قرار دینے کے لئے ) کہا : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سننے کے بعد بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس عورت کی زمین دبا لونگا ۔ مروان نے پوچھا : تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے ؟ حضرت سعید نے بیان کیا : میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی زبردستی ہتھیا لے گا تو (قیامت کے دن ) اللہ تعالیٰ اس زمین کے ساتوں طبقوں کو طوق بنا کر اس شخص کے گلے میں ڈالے گا، مروان نے (یہ سن کر ) حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اس دلیل کے بعد میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تم سے گواہ طلب کروں تاہم حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے (زمین کا وہ قطعہ اس عورت کے حق میں چھوڑ دیا اور ) کہا : اے اللہ !یہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اس کی بینائی چھین لے اور اس کو اسی زمین میں موت دے ۔ حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے وہ عورت اندھی ہوگئی تھی اور ایک دن اسی (مذکورہ ) زمین پر چل رہی تھی کہ اچانک ایک گہرے گھڑے میں گری اور وہی مرگئی (بخاری ومسلم )
اور مسلم کی ایک اور روایت میں ، جو حضرت ابن زید ابن عبداللہ ابن عمر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی ) سے اس روایت کے ہم معنی منقول ہے یوں ہے کہ انہوں نے (یعنی محمد ابن زید نے ایک دن ) دیکھا کہ وہ عورت ، جو اندھی ہوچکی تھی (ایک دیوار کے سہارے ) ٹٹولتی ہوئی چل رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے سعید ابن زید کی بددعا کھا گئی، اور پھر یہ ہوا کہ (ایک دن ) جب وہ اس کنویں (یعنی گہرے گڑھے ) کے پاس سے گذر رہی تھی جو اسی مذکورہ زمین پر واقع گھر میں تھا تو اچانک اس میں گر کر مر گئی اور وہی کنواں (گڑھا ) اس کی قبر بن گیا ۔
تشریح :
حضرت سعید ابن زید عشرہ مبشرہ یعنی ان دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی تھی ، یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی اور بڑے باکرامت ومستجاب الدعوات تھے اروی کے بارے میں یہ تحقیق سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کوئی صحابیہ تھی یا تابعیہ بہرحال اس عورت نے مروان حاکم مدینہ کی عدالت میں حضرت سعید ابن زید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف یہ جھوٹا دعوی دائر کیا کہ انہوں نے زبردستی کر کے میری زمین کا کچھ حصہ دبالیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ زمین حضرت سعید ابن زید کی اپنی جائز ملکیت اور قبضے میں تھی چنانچہ انہوں نے اس جھوٹے دعوے پر سخت حیرت اور استبعاد کا اظہار کیا اور مروان کے سامنے کہا کہ جس شخص نے کسی کی زمین ہتھیانے کی وعید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سن رکھی ہو بھلا وہ کیسے جرأت کرسکتا ہے کہ کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلے ۔ مروان نے حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس وعید سے متعلق حدیث سننے کی خواہش ظاہر کی، حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ نے وہ حدیث جس کو انہوں نے خود براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا بیان کردی ۔ مروان کو حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی سچائی کا یقین ہوگیا اور اس وقت اس نے حضرت سعید رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ علیہ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے سچا ہونے کا پورا یقین ہے کیونکہ میں تمہاری اندرونی زندگی تک جانتا ہوں، تم کسی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے اور پھر تم سے یہ حدیث سننے کے بعد تو اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ عدالتی طور پر تمہاری بات تسلیم کرنے کے لئے تم سے کوئی گواہ طلب کروں ۔ یا مروان کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری روایت حدیث میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اور نہ اس حدیث کو صحیح ماننے کے لئے میں کسی اور راوی کی بھی روایت کا محتاج ہوں، تم خود اپنی معروف حیثیت کے اعتبار سے دو راویوں بلکہ اس زائد راویوں کے برابر ہو۔غرضیکہ مروان نے اس عورت کا دعوی کردیا ۔ مگر جیسا کہ کرمانی نے لکھا ہے اور خود روایت سے بھی مفہوم ہوتا ہے، حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے احتیاطا اس زمین سے دست کشی اختیار کر کے اسی عورت کے قبضہ میں جانے دی جس نے اس زمین کا دعوی کیا تھا ، تاہم انہوں نے بد دعا ضرور کی کہ وہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اسی دنیا میں اپنے جھوٹ کی سزا پائے اور دنیا والوں کی نظر میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بد دعا کا اثر ظاہر کیا اور جیسا کہ حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا تھا وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی بھی ہوگئی اور وہی زمین اس کی قبر بھی بنی جب وہ اس زمین میں واقع گھر کے اندر ، ایک کنویں نما گڑھے میں گر کر مر گئی تو کسی نے اس کی لاش نکال کر علیحدہ سے دفن کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی ۔