ایک پیش گوئی کے حرف بحرف صادق آنے کا معجزہ
راوی:
وعن أنيسة بنت زيد بن أرقم عن أبيها أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل على زيد يعوده من مرض كان به قال : " ليس عليك من مرضك بأس ولكن كيف لك إذا عمرت بعدي فعميت ؟ " قال : أحتسب وأصبر . قال : " إذا تدخل الجنة بغير حساب " . قال : فعمي بعد ما مات النبي صلى الله عليه و سلم ثم رد الله بصره ثم مات
اور حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت انیسہ اپنے والد (حضرت زید ابن ارقم ) سے نقل کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زید ابن ارقم کی عیادت کو تشریف لے گئے جو بیمار ہوگئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کو تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرمایا : اس مرض کا تمہیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے (کیونکہ تم بالکل اچھے ہوجاؤ گے ) لیکن اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میرے بعد زندہ رہوگے اور تمہاری بینائی جاتی رہے گی ؟ زید ابن ارقم نے عرض کیا : میں ثواب کا آرزو مند ہوں گا اور (اپنے رب کے حکم پر ) صابر و راضی رہوں گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کا یہ جواب سن کر ) فرمایا : پھر تو تم بغیر حساب کتاب کے جنت میں جاؤ گے " راوی نے (خواہ وہ حضرت انیسہ ہوں یا ان کے علاوہ دوسرا ) بیان کیا ہے کہ زید ابن ارقم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اندھے ہوگئے تھے ، پھر (بہت زمانہ کے بعد ) اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی دوبارہ واپس کردی اور پھر ان کا انتقال ہوا ۔"
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ پیش گوئی حرف بحرف صادق ہوئی کہ جس بیماری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زید کی عیادت کو گئے تھے اس سے صحت یاب ہوگئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی ۔ تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پیش گوئی کرتے وقت زید ابن ارقم کے سامنے ان کی بینائی کے پھر بحال ہونے کا جو ذکر نہیں فرمایا تو اس کی وجہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش ہوگی کہ اس صورت میں زید ابن ارقم صبر میں زیادہ سے زیادہ تعب اور تکلیف برداشت کریں اور پھر اس کے بعد ان کو زیادہ سے زیادہ اذیت اور پریشانی ہوتی اور نہ ان کو کامل صبر کا وہ مقام نصیب ہوتا جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی مدد نصرت ان کو حاصل ہوئی ۔