مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 520

غزوہ حنین میں فتح کی پیش گوئی کا ذکر

راوی:

وعن سهل ابن الحنظلية أنهم ساروا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم حنين فأطنبوا السير حتى كانت عشية فجاء فارس فقال يا رسول الله إني طلعت على جبل كذا وكذا فإذا أنا بهوازن على بكرة أبيهم بظعنهم ونعمهم اجتمعوا إلى حنين فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال تلك غنيمة المسلمين غدا إن شاء الله ثم قال من يحرسنا الليلة قال أنس بن أبي مرثد الغنوي أنا يا رسول الله قال اركب فركب فرسا له فقال : " استقبل هذا الشعب حتى تكون في أعلاه " . فلما أصبحنا خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى مصلاه فركع ركعتين ثم قال هل حسستم فارسكم قالوا يا رسول الله ما حسسنا فثوب بالصلاة فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي وهو يلتفت إلى الشعب حتى إذا قضى الصلاة قال أبشروا فقد جاء فارسكم فجعلنا ننظر إلى خلال الشجر في الشعب فإذا هو قد جاء حتى وقف على رسول الله صلى الله عليه و سلم فسلم فقال إني انطلقت حتى كنت في أعلى هذا الشعب حيث أمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما أصبحت اطلعت الشعبين كليهما فلم أر أحدا فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم هل نزلت الليلة قال لا إلا مصليا أو قاضي حاجة قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فلا عليك أن لا تعمل بعدها " . رواه أبو داود

" اور حضرت سہل ابن حنظلیہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر ( حنین کے مقام پر جانے کے لئے ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے تو سفر کا سلسلہ طویل ہوگیا ( یعنی کہیں رکے بغیر مسلسل چلتے رہے ) یہاں تک کہ جب رات آئی تو ( ایک جگہ پہنچ کر جہاں پڑاؤ ڈالنا تھا ) ایک سوار خدمت اقدس میں ) حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم : میں ایسے اور ایسے پہاڑ پر چڑھا ( اور دشمن کا جائزہ لے رہا تھا ) کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ہوازن ( جو مشہور اور بہت بڑا قبیلہ ہے ) اپنے باپ کے اونٹ پر آگیا ہے یعنی قبیلہ کے تمام لوگ آگئے ہیں ) ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی ہیں اور ان کے مویشی بھی ہیں اور وہ سب حنین کے مقام پر جمع ہوگئے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( سن کر معنی خیز انداز میں ) مسکرائے اور فرمایا ۔ " انشاء اللہ یہ سب چیزیں کل کے دن مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تمام اہل لشکر کی طرف روئے سخن کر کے ) فرمایا : آج کی رات ہماری نگہبانی کا ذمہ کون لیتا ہے ؟ ( ایک صحابی ) حضرت انس ابن ابی مرقد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تم اس پہاڑی راستہ سے جا کر اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤ ( اور وہاں سے دشمن پر نگاہ رکھو) " ۔ پھر جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کی جگہ تشریف لائے ( جو پہلے سے مقرر تھی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فجر کی سنت کی ) دو رکعتیں پڑھیں اور ( اہل لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا کیا تمہیں اپنے سوار کی کچھ آہٹ ملی؟ ( یعنی تم میں سے کسی نے اس کو آتے دیکھا ہے یا اس کی آواز کسی نے سنی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ کس حال میں ہے ؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نہیں ( ہم میں سے کسی کو کوئی آہٹ وخبر نہیں ہے ) اتنے میں نماز فجر کی تکبیر کہی گئی ( اور نماز شروع ہوگئی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( کے اضطراب کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) نماز کے دوران بھی کن انکھیوں سے اسی پہاڑی راستہ کی طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا : خوش ہو جاؤ ، تمہارا ( وہ ) سوار آرہا ہے ( جو تمہاری نگہبانی کر رہا تھا ) چنانچہ ہم لوگوں نے اس پہاڑی راستہ کے درختوں میں دیکھنا شروع کیا یہاں تک وہ سوار آتا ہوا دکھائی دیا اور پھر وہ آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوگیا اور بیان کیا کہ میں ( یہاں سے ) روانہ ہوا پہاڑی راستہ سے ہوتا ہوا ( پہاڑ کی ) اس چوٹی پر پہنچا ، جہاں جانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ( اور پوری رات اسی جگہ کھڑا ہوا نگہبانی کرتا رہا ) پھر جب صبح ہوئی تو میں پہاڑ کے دونوں راستوں ( اور اس کی ادھر ادھر کی گھاٹیوں ) میں آیا ( تاکہ اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگا لوں کہ دشمن کے کچھ لوگ ادھر ادھر تو نہیں چھپے ہوئے ہیں ، لیکن میں نے وہاں کسی کو نہیں دیکھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انس ابن مرثد سے پوچھا کیا رات میں گھوڑے سے اترے تھے ؟ انہوں نے کہا صرف نماز پڑھنے کے لئے یا استنجاء کرنے کے لئے ( ذرا سی دیر کے لئے ) اترا تھا ( ورنہ پوری رات گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا نگہبانی کرتا رہا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا : پھر تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اس رات کے بعد کوئی عمل نہ کرو ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
" بکرۃ " ۔ جوان اونٹ کو کہتے ہیں اور علی بکرۃ ابیہم ۔ ( اپنے باپ کے اونٹ پر ) دراصل عربوں کا ایک محاورہ ہے ان لوگوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کسی جگہ آئیں اور سب کے سب آجائیں ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے ۔ یہ محاورہ یہاں سے چلا کہ کسی زمانہ میں ایک جگہ عربوں کی ایک جماعت کے لوگ کہیں جانے کے لئے تیار ہوئے چنانچہ جب انہوں نے کوچ کیا تو جس شخص کو جہاں بھی کوئی اونٹ کھڑا ہوا ملا اس نے اس کو پکڑا اور اس پر بیٹھ کر روانہ ہوگیا ، اتفاق کی بات کہ وہ اونٹ خود ان لوگوں کی ذاتی ملکیت نہیں تھے بلکہ ان کے باپ کے تھے ۔ جو ادھر ادھر چر رہے تھے اس طرح وہ تمام لوگ ان اونٹوں پر سوار ہو کر منزل مقصود کو روانہ ہوگئے ان میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہیں بچا جو ان اونٹوں میں سے کسی اونٹ پر بیٹھ کر روانہ نہ ہوا ہو ، پس اس کے بعد یہ محاورہ ہو گیا کہ جب کسی جماعت یا قبیلے کے لوک اجتماعی طور پر کہیں آتے تو ان کی اس اجتماعیت کو اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کہا جاتا کہ : جاؤ ا علی بکرۃ ابیہم ۔ ( وہ لوگ اپنے باپ کے اونٹوں پر آگئے )
اور قاضی نے لکھا ہے کہ علی بکرۃ ابیہم دراصل مع کے معنی میں ہے اور یہ جملہ ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوا ہے ، اور یہ مثل یہاں سے چلی کہ ایک عرب خاندان کے کچھ لوگوں کے کسی حادثہ یا واقعہ کے پیش آجانے پر اپنی آبادی چھوڑنا پڑی ، چنانچہ ان تمام لوگوں نے یہاں سے کوچ کیا چونکہ وہ لوگ اپنے پیچھے کوئی چیز چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اس لئے ایک ایک چیز اپنے ساتھ لے لی ، یہاں تک کہ اونٹ جو ان کے پاس تھا اس کو بھی اپنے ساتھ لے لیا اس پر کچھ لوگوں نے کہا جاؤ ا علی بکرۃ ابیہم ۔ یہ لوگ ( سب کچھ لے کر ) آگئے یہاں تک کہ اپنے باپ کا اونٹ بھی لیتے آئے اس کے بعد سے یہ جملہ ایسے لوگوں کے حق میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگا جو ابنے ساتھ اپنے تمام مال واسباب اور تمام آدمیوں کو لے کر پہنچتے چاہے ان کے ساتھ اونٹ ہوتا یا نہ ہوتا اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی تمام اولاد کو اپنے اونٹ پر لئے پھرتا تھا : اس کو دیکھ کر کسی نے یہ جملہ کہا اور جب سے یہ ضرب المثل بن گیا ۔ "
" کہ اس رات کے بعد کوئی عمل نہ کرو " اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوار یعنی حضرت انس ابن مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بشارت دی کہ تمہارے لئے اللہ کے نزدیک آج کی رات ہی کافی ہے ۔ تمہارے نامہ اعمال میں اس رات کی خدمت کے عوض اتنا اجر و ثواب جمع ہوگیا ہے اور تمہیں اتنی فضیلت مل گئی ہے کہ اگر تم از قسم فضائل ونوافل اور کوئی عمل نہ بھی کرو ، تو آخرت میں بلندی درجات کی طرف سے تمہیں کوئی فکر نہ ہونی چاہئے ۔ پس اس جملہ میں یہاں " عمل " سے نوافل وحسنات مراد ہیں نہ کہ فرائض ، کیونکہ فرائض تو کسی حال میں ساقط نہیں ہوتے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں " عمل سے " مراد " جہاد " ہے ، مطلب یہ ہے کہ تم نے آج کی رات اللہ کی راہ میں ہماری نگہبانی کی ذمہ داری جس محنت ومشقت اور جان نثاری کے جذبہ سے نبھائی ہے ، اس کے بعد اگر تم جہاد میں شریک نہ بھی ہو تو تم پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں