مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 52

دجال کا حلیہ

راوی:

وعن عبادة بن الصامت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إني حدثتكم عن الدجال حتى خشيت أن لا تعقلوا . إن المسيح الدجال قصير أفحج جعد أعور مطموس العين ليست بناتئة ولا حجراء فإن ألبس عليكم فاعلموا أن ربكم ليس بأعور رواه أبو داود .

" اور حضرت عبادہ بن صامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " میں نے تم لوگوں سے دجال کا حال اس اندیشہ سے ( بار بار ) بیان کیا ہے کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے ، ( تو اچھی طرح سمجھ لو کہ ) دجال پستہ قد ہے ، پھڈا ہے ، اس کے بال مڑے ہوئے ہیں ( ایک آنکھ سے ) کانا ہے اور ( دوسری ) آنکھ سلپٹ یعنی بالکل مٹی ہوئی ہے ، اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کو دھنسی ہوئی ۔ اس کے بعد بھی اگر تم شبہ میں پڑجاؤ ( یعنی میں نے دجال کا جو حلیہ بیان کیا ہے وہ بھول جانے کے سبب اور اس کے ما فوق الفطرت کے کارناموں کی وجہ سے اس کا دعوی الوہیت اگر تمہیں کسی درجہ میں شبہ میں مبتلا بھی کر دیں تو ) اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے ۔ " ( ابوداؤد)

تشریح :
" کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ میں جو بار بار اور مختلف انداز میں دجال کا حال تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دجال کی حیثیت وحقیقت تمہارے ذہن میں میں نے بتائی ہیں یا تمہارا دل ودماغ اس کی حقیقت سے نا آشنا رہے ۔ ! اور طیبی نے کہا ہے کہ انی حدثتکم عن الدجال حتی حشیت الخ میں لفظ " حتی " دراصل " حدثتکم " کی غایت ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دجال کے سلسلہ میں اتنی زیادہ اور اس قدر متفرق طور پر احادیث بیان کی ہیں کہ مجھے یہ خدشہ ہوگیا ہے کہ کہیں تم التباس کا شکار نہ ہو جاؤ اور تمہارا ذہن اس طرح نہ الجھ جائے کہ دجال کی حیثیت وحقیقت اور اس کے احوال کی تفصیل تمہارے فہم وادراک کی گرفت سے باہر ہوجائے ، پس تم پر لازم ہے کہ دجال کے احوال کو خوب اچھی طرح سمجھ لو اور اپنے آپ کو اس بارے میں شکوک وشہبات اور التباس سے بچاؤ ۔
دجال پستہ قد ہے ، یہ بات بظاہر اس روایت کے مخالف ہے جس میں دجال کو سب سے بڑے ڈیل ڈول والا بتایا گیا ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ، کیونکہ پستہ قد ہونا بڑے ڈیل ڈول والا ہونے کے منافی نہیں ہے ، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ دجال ٹھگنے قد کا بھی ہو اور پٹیل بھاری جسم والا بھی، اور یہ بات اس کے اتنا بڑا فتنہ پرواز ہونے کے اعتبار سے اس کی فطرت اور اس کی حقیقت کے مطابق بھی ہے ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے خروج کے وقت اس کو متغیر کر دے یعنی اس وقت تو وہ بہت بڑے ڈیل ڈول والا ہے لیکن جب اس کے ظاہر ہونے کا وقت آئے گا او ٹھگنا ہو جائے گا ۔
" پھڈا " افحج " کا ترجمہ ہے ، یعنی ایسا شخص یا جانور جس کے چلنے کا یہ غیر معمولی انداز ہو کہ پاؤں کے سرے یعنی پنجے تو زمین پر قریب قریب پڑیں مگر دونوں ایڑیاں ، پھیلی ہوئی پنڈلیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے دور پڑیں اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ " افحج " کے معنی ہیں دونوں رانوں کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ ہونا ۔
" اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کودھنسی ہوئی ۔ " یہ جملہ منفیہ موکدہ ہے جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس کی ایک آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہوگی، پس یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانہ کی طرح پھولی ہوئی ہوگی اس کی وضاحت پیچھے کی جا چکی ہے ۔
" اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پرودگار کانا نہیں ہے ۔ " یعنی ایک مسلمان ومؤمن کی حیثیت سے تمہارے اوپرصفات ربوبیت میں سے جس چیز کا سب سے پہلے پہچاننا واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ ( تمہارا رب ) حدوث وعیوب اور خصوصا ظاہری نقائص سے بالکل پاک ہے پس اگر یہ بنیادی عقیدہ تمہارے دل ودماغ میں مستحضر رہے گا تو تم دجال کو کانا دیکھ کر فورا سمجھ جاؤ گے کہ یہ عیب دار ذات ہرگز اللہ نہیں ہو سکتی خواہ وہ اپنی خدائی کے اظہار کے لئے تمہیں شک وشبہ میں ڈالنے والے کتنے ہی مافوق الفطرت کارنامے کیوں نہ دکھائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں