مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 517

جنگ بدر میں قبولیت دعا کا معجزہ

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه و سلم خرج يوم بدر في ثلاثمائة وخمسة عشر قال : " اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم " ففتح الله له فانقلبوا وما منهم رجل إلا وقد رجع بجمل أو جملين واكتسوا وشبعوا . رواه أبو داود

" اور حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر کے دن تین سو پندرہ آدمیوں کو لے کر نکلے اور دعا فرمائی : اے اللہ! یہ ( میرے صحابہ جو تیری راہ میں لڑنے کے لئے نکلے ہیں ننگے پاؤں ہیں ان کو سورای عطا فرما ! یہ ننگے بدن ہیں (کہ ان کے جسم پر تہبند کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں ) ان کو لباس عطا کر ، اے اللہ ! یہ بھوکے ہیں ، ان کو ( ظاہری وباطنی طور پر ) شکم سیر فرما ( تاکہ ان کو تیری طاعت وعبادت کی طاقت حاصل ہو " چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ( مشرکین مکہ کے مقابلہ پر ) فتح یاب کیا ( دشمن کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی جنگی قیدیوں کے طور پر ہاتھ لگے ) مجاہدین اسلام ، اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے پاس ایک یا دو اونٹ نہ ہوں ، نیز سب کو لباس بھی نصیب ہوئے اور سب شکم سیر بھی ہوئے ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
مطلب یہ کہ ہزیمت خوردہ دشمن کے جو اونٹ ، کپڑے اور غذائی سامان مال غنیمت کے طور پر اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا ۔ اس کی وجہ سے ان مجاہدین کو اونٹ بھی مل گئے ، کپڑے بھی ملے اور شکم سیری بھی ہوگئی ، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک دعا قبول ہوئی ۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا قبول ہونا خصوصا ً اتنی جلدی اور اتنے مکمل طور پر قبول ہونا خارق عادت ( یعنی معجزہ و کر امت ) کے قبیل سے ہے اور یہ نتیجہ تھا اس اس صبر کا جس کا مظاہرہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی تمام صعوبتوں اور پریشانیوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مجاہدین اسلام کی طرف سے ہوا ، جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے ان الصبر علی ما یکرہ فیہ خیر کثیر ۔ ( ناگوار اور پریشان کن امور پر صبر کرنا درحقیقت بہت ساری بھلائیوں اور فائدوں کا استحقاق حاصل کرنا ہے ) نیز اس صبر کا یہ تو وہ فوری ثمرہ تھا ، جو اس دنیا میں ملا ، اصل ثمرہ توباقی ہی رہا ، جو آخرت میں ملے گا ۔ والاخرۃ خیر وابقی ۔

یہ حدیث شیئر کریں