مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 516

برکت کہاں سے آتی تھی

راوی:

وعن أبي العلاء عن سمرة بن جندب قال كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم نتداول من قصعة من غدوة حتى الليل يقوم عشرة ويقعد عشرة قلنا : فمما كانت تمد ؟ قال : من أي شيء تعجب ؟ ما كانت تمد إلا من ههنا وأشار بيده إلى السماء " . رواه الترمذي والدارمي

" اور حضرت ابوالعلاء رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( تابعی ) سمرہ ابن اجندب ( صحابی ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا " ( ظہور معجزہ کے وقت ) ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بڑے پیالہ میں سے ( دس دس آدمی باری باری صبح سے شام تک ( یعنی پورے دن ) کھاتے رہتے تھے ، ہوتا یہ کہ دس آدمی کھا کر اٹھ جاتے تو ( ان کی جگہ ) دوسرے دس آدمی آکر بیٹھ جاتے تھے ۔ ہم نے ( حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ) پوچھا کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس کے ذریعہ پیالہ کی مدد ہوتی تھی ( یعنی اس پیالہ میں سے کھانا کس چیز کے ذریعہ اور کہاں سے اتنا زیادہ ہو جاتا تھا ؟ ) ۔ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا : تمہارے لئے اس میں تعجب کی کیا بات ہے، اس پیالہ میں ( کھانے کا اضافہ ) وہاں سے ، یہ کہہ کر انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ۔ " ( ترمذی ، دارمی )

تشریح :
تمہارے لئے اس میں تعجب کی کیا بات ہے " سوال تو ان سب تابعین کی طرف سے تھا جن کے سامنے حضرت سمرہ بیان کررہے تھے ، لیکن حضرت سمرہ نے جواب میں صرف حضرت ابوالعلاء کو مخاطب کیا کیونکہ اول تو وہ بھی سوال کرنے والوں میں سے ایک تھے اور دوسرں یہ کہ اس مجلس میں حضرت ابوالعلاء کی حیثیت جلیل القدر تابعین میں ہونے کی وجہ سے سب سے نمایاں تھی ۔ یا یہ کہ حضرت سمرہ نے کسی ایک شخص کو یا صرف اس مجلس کے لوگوں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کا خطاب عمومی طور پر ہر شخص سے ہے جو اس حدیث کو سنے یا پڑہے ، بہر حال حضرت سمرہ کا مطلب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس ایک پیالہ میں موجود ( تھوڑے سے کھانے سے اتنے زیادہ آدمی دن بھر کھاتے رہتے تھے باوجودیکہ ظاہر طور پر ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا جس سے اس پیالہ کے کھانے میں اضافہ ہو سکتا ، کیونکہ یہ تو معجزے کی بات تھی ، اللہ اور اللہ کے رسول کا معاملہ تھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اس پیالہ کو چھوتے تھے جس کے سبب اللہ آسمان سے برکت نازل کرتا تھا اور اس پیالہ میں غیر مرئی طور پر عالم بالا سے کھانا اترتا رہتا تھا ، اس میں گویا قرآن کریم کی اس آیت (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ) 51۔ الزاریات : 22) کی طرف اشارہ ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں