بھیڑیے کے بولنے کا معجزہ
راوی:
وعن أبي هريرة قال جاء ذئب إلى راعي غنم فأخذ منها شاة فطلبه الراعي حتى انتزعها منه قال فصعد الذئب على تل فأقعى واستذفر فقال عمدت إلى رزق رزقنيه الله عز و جل أخذته ثم انتزعته مني فقال الرجل تالله إن رأيت كاليوم ذئبا يتكلم فقال الذئب أعجب من هذا رجل في النخلات بين الحرتين يخبركم بما مضى وبما هو كائن بعدكم وكان الرجل يهوديا فجاء الرجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأسلم وخبره فصدقه النبي صلى الله عليه و سلم ثم قال النبي صلى الله عليه و سلم إنها أمارة من أمارات بين يدي الساعة قد أوشك الرجل أن يخرج فلا يرجع حتى تحدثه نعلاه وسوطه ما أحدث أهله بعده " . رواه في شرح السنة
" اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک بھیڑیا ( بکریوں ) کے ایک ریوڑ میں، جہاں اس کا چرواہا بھی موجود تھا ، گھس آیا اور اس میں سے ایک بکری اٹھا کر بھاگا ، چرواہے نے اس کا تعاقب کیا اور آخر کار بکری کو اس بھیڑئیے سے چھڑا لیا ۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ : پھر وہ بھیڑیا ایک ٹیلہ پر چڑھا اور وہاں اس طرح بیٹھ گیا جیسے کوئی بھیڑیا سرین کے بل بیٹھتا ہے اور دونوں پاؤں کھڑے کر کے اپنی دم ان دونوں پاؤں کے درمیان داخل کرلی اور چرواہے کو ( زور سے ) مخاطب کر کے بولا : میں نے اپنا وہ رزق لینا چاہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے لیکن تم نے میرا رزق مجھ سے چھین لیا ہے ۔ چرواہے نے ( جو ایک بھیڑیا کو بولتے دیکھا تو ششدرہ رہ گیا ، چنانچہ اس نے بھڑئیے ہی کو مخاطب کر کے کہا : اللہ کی قسم ، جیسا عجوبہ ، میں نے آج دیکھا ہے ایسا تو کبھی نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا ( آدمی کی طرح ) باتیں کر رہا ہے ۔ بھیڑیا پھر بولا : اس سے بڑا عجوبہ تو اس شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا حال ہے ، جو کھجوروں کے درختوں کے پیچھے دو سنگستانوں کے درمیان ( یعنی مدینہ میں ) رہتا ہے ، وہ شخص تمہیں وہ باتیں بتا دے گا جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں اور وہ باتیں بھی بتا دے گا جو تمہارے بعد وقوع پذیر ہونے والی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ آدمی ( چرواہا ) جو ایک یہودی تھا بھیڑئیے کی زبانی سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( بھیڑیے کے بولنے کا ) قصہ بیان کرکے مسلمان ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیان کردہ قصہ کو درست تسلیم کیا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس طرح کی باتیں قیامت سے پہلے کی ( یعنی قرب قیامت کی ) علامتیں ہیں وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ آدمی ( اپنے گھر سے ) باہر جائے گا اور جب لوٹ کر ( گھر میں ) آئے گا تو اس کے جوتے اور اس کا کوڑما ( وغیرہ ) اس کو وہ تمام باتیں بتا دے گا، جو اس کے گھر والوں نے اس کی عدم موجودگی میں کی ہوں گی ۔ 'ع ( شرح السنۃ )
تشریح :
علامہ تور پشتی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ اس چرواہے کا نام جو بعد میں مسلمان ہو کر شرف صحابیت سے سر فراز ہوئے اہبار بن اوس خزاعی تھا ، اس واقعہ کی نسبت سے ان کو ' ' مکلم الذئب " کہا جانے لگا تھا ۔۔۔ لیکن روایت کے یہ الفاظ کہ " جو ایک یہودی تھا " اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اہبار ابن اوس خزاعی تھے " کیونکہ قبیلہ خزاعہ کے لوگ یہودی نہیں تھے ، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہبار اوس کا تعلق قبیلہ خزاعہ ہی سے تھا اور انہوں نے اپنے قبیلہ والوں کے برخلاف یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا اس صورت میں تورپشتی کے قول پر کوئی اعتراض وار نہیں ہوگا ۔
" کھجور کے درختوں کے پیچھے دو سنگستانوں کے درمیان " سے مراد مدینہ شہر تھا اور دو سنگستانوں " دراصل حرتین کا ترجمہ ہے ، حرتین تثنیہ ہے حرہ کا ، جس کے معنی " کالی پتھریلی زمین " کے ہیں مدینہ شہر ایک ایسے میدان میں آباد ہے جو اپنی مشرقی اور مغربی سمتوں سے دو حروں ( یعنی دو سنگستانوں کے درمیان واقع ہے ۔ "
" پہلے گزرنے والی باتوں " سے پچھلی امتوں کے احوال انجام مراد ہیں اور " بعد میں وقوع پذیر ہونے والی باتیں بتائے " سے مراد آنے والے زمانوں میں جو اہم واقعات وحوادث رونما ہوں گے ان کی پیش خبری بھی ہے اور عقبی وآخرت کے حقائق وکوائف بتانا بھی ۔