مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 512

درخت کا معجزہ

راوی:

وعن أنس بن مالك قال جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه و سلم وهو جالس حزين وقد تخضب بالدم من فعل أهل مكة من قريش فقال جبريل يا رسول الله هل تحب أن أريك آية قال نعم فنظر إلى شجرة من ورائه فقال ادع بها فدعا بها فجاءت وقامت بين يديه فقال مرها فلترجع فأمرها فرجعت فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم حسبي حسبي . رواه الدارمي

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت غمگین اور زخموں کے خون میں لتھڑے ہوئے بیٹھے تھے جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے کہ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ پسند کریں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ) ایک معجزہ دکھاؤں (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی علامت ہوگی اور جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہوجائے گی کہ اللہ کی راہ میں اذیت و پریشانی اٹھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب و درجات کی بلندی میں اضافہ کا باعث ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور دکھاؤ ۔ جبرائیل علیہ السلام نے اس درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس درخت کو بلائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو بلایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( تابعداروں کی طرح ) آکر کھڑا ہوگیا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا اب اس کو واپس جانے کا حکم دیجئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپسی کا حکم دیا تو واپس چلا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا مجھ کو کافی ہے مجھ کو کافی ہے (دارمی)۔

تشریح
جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے سے کفار مکہ کہ وہ بدسلوکی اور اذیت رسانی مراد ہے جو ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ احد میں پہنچی تھی جس کے نتیجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہوا اور رخسار مبارک زخمی ہوگیا تھا۔صورت میں بارگاہ حق میں اپنا بلند مرتبہ ومقام اور اپنی عظمت دیکھ کر مجھے اپنے زخموں کی اذیت کا احساس رہ گیا اور نہ کوئی رنج وغم رہا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کہ خارق عادت (یعنی معجزہ یا کرامت ) کا ظہور یقین و اعتقاد کی مضبوطی اور غم وحزن کے دفعیہ میں موثر کردار ادا کرتا ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ جن بندگان عالی کو بارگاہ رب العزت میں تقرب اور عظمت کا مقام حاصل ہوتا ہے اگر ان کو دشمنوں کی اور مخالفوں کی طرف سے جسمانی یا روحانی اذیت و تکلیف اور رنج وغم پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ دین کی راہ میں جس قدر مشقت اور پریشانی آتی ہے اتنا ہی اجر بڑھتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں