دجال کا ذکر
راوی:
عن فاطمة بنت قيس في حديث تميم الداري قالت قال فإذا أنا بامرأة تجر شعرها قال ما أنت ؟ قالت أنا الجساسة اذهب إلى ذلك القصر فأتيته فإذا رجل يجر شعره مسلسل في الأغلال ينزو فيما بين السماء والأرض . فقلت من أنت ؟ قال أنا الدجال . رواه أبو داود .
" حضرت فاطمہ بنت قیس تمیم داری کی حدیث کے سلسلہ میں بیان کرتی ہیں کہ تمیم داری نے کہا کہ ( جب میں جزیرہ میں داخل ہوا تو اچانک میرا گزر ایک عورت پر ہوا جو اپنے بالوں کو گھسیٹتی تھی ( یعنی اس کے بال بہت بڑے بڑے تھے جو زمین پر گھسٹتے رہتے تھے ) تمیم نے کہا ( میں نے اس عورت کو دیکھ کر پوچھا کہ ) تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جاسوسی کرنے والی ہوں ( اور دجال کو خبریں پہنچاتی ہوں ) تو اس محل کی طرف چلا جا ! تمیم کا بیان ہے کہ میں اس محل میں آیا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ہے جو اپنے بالوں کو گھسیٹتا ہے ۔
زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور طوق پڑے ہوئے ہیں اور آسمان وزمین کے درمیان اچھلتا کودتا ہے میں نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں دجال ہوں ۔ " ( ابوداؤد )
تشریح :
روایت کے جزء کا حاصل یہ ہے کہ تمیم داری کے مذکورہ واقعہ کے سلسلہ میں مسلم نے جو حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کی ہے اور جو پیچھے گزری ہے ، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تمیم داری اور ان کے ساتھی اس جزیرہ میں داخل ہوئے تو فلقیتہم الدابۃ یعنی وہاں ان کو ایک چوپایہ ملا لیکن انہیں فاطمہ کی جو روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اس میں چوپایہ کے بجائے ایک عورت کے ملنے کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں میں تو یہ تضاد ہوا کہ مسلم کی روایت میں تو جساسہ کو دابہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس کو عرف عام میں چوپایہ کہتے ہیں اور یہاں ابوداؤد کی روایت میں " عورت " کہا گیا ہے ؟ اس تضاد کو دور کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ شاید دجال کے دو جاسوس ہونگے ، ایک دابہ اور دوسری ، عورت ، یا یہ کہ دابہ کے اصل لغوی معنی چلنے والے یعنی زمین پر چلنے والے کے ہیں ، اس لفظ کا اطلاق جو صرف چوپایہ پر کیا جاتا ہے وہ عرف عام کے اعتبار سے ہے ، قرآن مجید میں لفظ دابہ کا زیادہ استعمال اس کے اصل لغوی معنی ہی میں ہوا ہے ، جیسے وما من دابۃ فی الارض الاعلی اللہ رزقہا ( یعنی روئے زمین پر چلنے والا ایسا کوئی جاندار نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو پس اس معنی میں دابہ کا اطلاق عورت پر بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم کی روایت میں " جو دابہ " کی صورت میں ظاہر ہوا اور کبھی " عورت " کی صورت میں !یہ بات زیادہ قرین قیاس بھی ہے اور موزوں تر بھی کیونکہ جاسوسی کا جو اصل مقصد ہو سکتا ہے یعنی دنیا بھر کی خبریں جمع کرنا اور دجال تک پہنچایا اس کا انجام پانا کسی دابہ ، یا عورت کی ذات سے بعید ہے ، الاّ یہ کہ جاسوسی اور خبریں حاصل کرنے کا تعلق دنیا بھر سے نہ ہو بلکہ صرف ان جہازوں اور کشتیوں سے ہو جو اس جزیرے کے آس پاس سے گزرتے ہوں ۔
ان دونوں روایتوں کے درمیان ایک اور تضاد بھی نظر آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ مسلم کی روایت میں سائل اور مخاطب کے طور پر شخص واحد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا ذکر ہے ، جب کہ ابوداؤد کی روایت میں سوال وجواب شخص واحد یعنی صرف تمیم داری کی ذات کے ساتھ مختص رکھا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے ، کہ سائل اور مخاطب پوری جماعت تھی لیکن اس جماعت میں چونکہ تمیم داری بھی شامل تھے اس لئے سوال وجواب کی نسبت صرف ان کی طرف کرنا بھی درست ہے یا یہ کہ سوال وجواب کرنے والے صرف تمیم داری ہی ہوں گے لیکن انہوں نے وہ سوال وجواب چونکہ پوری جماعت کے ترجمان کی حیثیت میں کیا ہوگا اس لئے اس سوال وجواب کی نسبت پوری جماعت کی طرف کرنا بھی درست ہے ، چنانچہ عرف عام میں رائج ہے کہ جب کسی جماعت کا کوئی فرد کوئی کام کرتا ہے تو کبھی اس کی نسبت صرف اسی شخص کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی پوری جماعت کی طرف مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں گروہ نے فلاں شخص کو مار ڈالا تو اگرچہ مارنے والا ایک ہی شخص ہوتا ہے مگر اس کی نسبت پورے گروہ کی طرف کی جاتی ہے ۔