ام المؤمنین حضرت زینب کے ولیمہ میں برکت کا معجزہ
راوی:
وعن أنس : كان النبي صلى الله عليه و سلم عروسا بزينب فعمدت أمي أم سليم إلى تمر وسمن وأقط فصنعت حيسا فجعلته في تور فقالت يا أنس اذهب بهذا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقل بعثت بهذا إليك أمي وهي تقرئك السلام وتقول إن هذا لك منا قليل يا رسول الله قال فذهبت فقلت فقال ضعه ثم قال اذهب فادع لي فلانا وفلانا وفلانا رجالا سماهم وادع من لقيت فدعوت من سمى ومن لقيت فرجعت فإذا البيت غاص بأهله قيل لأنس عدد كم كانوا ؟ قال زهاء ثلاث مائة . فرأيت النبي صلى الله عليه و سلم وضع يده على تلك الحيسة وتكلم بما شاء الله ثم جعل يدعو عشرة عشرة يأكلون منه ويقول لهم : " اذكروا اسم الله وليأكل كل رجل مما يليه " قال : فأكلوا حتى شبعوا . فخرجت طائفة ودخلت طائفة حتى أكلوا كلهم قال لي يا أنس ارفع . فرفعت فما أدري حين وضعت كان أكثر أم حين رفعت . متفق عليه
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نکاح ہوا تو (شب عروسی کے بعد ) میری والدہ ام سلیم نے کجھور، گھی اور قروت ( پنیر ) لے کر مالیدہ سا بنا لیا اور اس مالیدہ کو ایک پیالہ میں رکھ کر مجھ سے کہا کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور کہنا کہ میری مان نے یہ ( حقیر ہدیہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ ( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) یہ ایک چھوٹا سا ہدیہ ( جو ) ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے ( آگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق نہیں ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الطاف کریمانہ سے امید ہے کہ اس کو قبول فرمائیں گے ) چنانچہ میں اس کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میری والدہ نے کہا تھا عرض کر دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ) فرمایا کہ اس کو رکھ دو اور پھر فرمایا کہ فلاں فلاں اور فلاں شخص کو جن کے نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے تھے جا کر بلا لاؤ اور ( دیکھو ) راستہ میں جو شخص ملے اس کو بھی بلاتے لانا چنانچہ میں گیا اور ان لوگوں کو کہ جو مجھے راستہ میں ملے ، بلا کر لے آیا ، اور جب میں گھر میں واپس آیا ، تو دیکھا کہ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ( اس وقت ) تم سب کتنے لوگ ہوگے ؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تین سو کے قریب ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مالیدہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر وہ کہا جو اللہ نے چاہا ( یعنی خیر وبرکت کی دعا فرمائی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس آدمیوں کو بلانا شروع کیا اور وہ ( یکے بعد دیگرے دس دس ) آدمی کھانے ( کے لئے آنے ) لگے اور ( جو لوگ کھانے پر آتے ان سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ! اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص کو اپنے سامنے سے کھانا چاہئے ( کیونکہ کھانے کا یہ مسنون طریقہ ہے جس سے تہذیب وشائستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور کھانے میں خیر وبرکت بھی اترتی ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں : جب دس آدمیوں کی ایک جماعت کھانے سے فارغ ہو کر چلی جاتی تو ( اتنے ہی آدمیوں ) کی دوسری جماعت آجاتی ، یہاں تک کہ سب لوگوں نے ( خوب آسودہ ہو کر ) کھالیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا انس ! ( سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے ہیں ) اب اس پیالہ کو اٹھالو ۔ میں نے پیالہ کو اٹھالیا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت میں نے پیالہ رکھا تھا اس وقت اس میں مالیدہ زیادہ تھا ، یا اس وقت جب کہ ( تمام لوگوں کے اس کھانے سے فراغت کے بعد ) میں نے اس کو اٹھایا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
" جن کے نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے تھے " ۔ ان الفاظ کے ذریعہ حضرت انس نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو متعین ومشخص کر کے ان تین آدمیوں کے نام بتائے تھے لیکن اس وقت میرے ذہن میں وہ تینوں نام محفوظ نہیں ہیں لہٰذا میں نے یہاں ان تینوں کو فلاں فلاں اور فلاں لفظ سے تعبیر کیا ہے اس سے واضح ہوا کہ رجالا سما ہم کے الفاظ خود حضرت انس کے ہیں جو نحوی طور پر فلان و فلاں وفلاں کا بدل واقع ہوئے ہیں یا یہ کہ ان الفاظ سے پہلے اعنی یا یعنی کا لفظ مقدر ( محذوف ) ہے ۔
" اور میں نہیں کہہ سکتا کہ ۔۔ الخ۔ " یعنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ مالیدہ پہلے زیادہ تھا یا جب میں نے وہاں سے اٹھایا تو ای وقت زیادہ تھا، تاہم جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت ہاتھ رکھے جانے اور ان کے مقدس صحابہ کا پس خورجہ ہونے کے سبب وہ مالیدہ اس وقت جب کہ میں نے اس کو وہاں سے اٹھایا زیادہ بابرکت تھا ۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ام المؤمنین حضرت زینب کا ولیمہ اسی مالیدہ سے ہوا جو حضرت انس کی والدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا ، لیکن دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ولیمہ کا کھانا روٹی اور گوشت پر مشتمل تھا جیسا کہ خود حضرت انس کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کے ولیمہ میں بکری ذبح کی اور اس موقع پر ایک ہزار آدمیوں کو گوشت اور روٹی سے شکم سیر کیا ۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو دور کرنے کے لئے ) یہ کہا گیا ہے کہ دراصل وہ مالیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت پہنچا تھا جب آپ ولیمہ کا کھانا ( جو گوشت اور روٹی پر مشتمل تھا ) لوگوں کو کھلانے جا رہے تھے ، اس طرح اس دعوت ولیمہ میں دونوں چیزیں کھلائی گئیں ۔ یعنی مالیدہ بھی اور گوشت روٹی بھی ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک دن تو یہ مالیدہ والا واقعہ ہوا ہوگا اور دوسرے دن روٹی اور گوشت کھلانے کا واقعہ پیش آیا ہوگا ! مگر ملا علی قاری نے اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت انس کی والدہ نے جو مالیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا اسی کا ولیمہ ہوا بلکہ انہوں نے وہ مالیدہ ہدیہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو کے قریب لوگوں کو کھلایا تھا اور پھر اسی دن شام کو یا اگلے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری ذبح کر کے ولیمہ کیا اور اس ایک بکری کے گوشت اور روٹی میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ ایک ہزار شکم سیر ہوئے پس نہ تو ان دونوں روایتوں میں کوئی منافات ہے اور نہ ان دونوں معجزوں میں کوئی معارضہ