تبوک میں کھانے کی برکت کا معجزہ
راوی:
وعن أبي هريرة قال : لما كان يوم غزوة تبوك أصاب الناس مجاعة فقال عمر : يا رسول الله ادعهم بفضل أزوادهم ثم ادع الله لهم عليها بالبركة فقال : نعم قال فدعا بنطع فبسط ثم دعا بفضل أزوادهم فجعل الرجل يجيء بكف ذرة ويجيء الآخر بكف تمر ويجيء الآخر بكسرة حتى اجتمع على النطع شيء يسير فدعا رسول الله صلى الله عليه و سلم بالبركة ثم قال خذوا في أوعيتكم فأخذوا في أوعيتهم حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا ملؤوه قال فأكلوا حتى شبعوا وفضلت فضلة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيحجب عن الجنة " . رواه مسلم
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دن ( توشہ کی کمی کے سبب ) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے اللہ سے برکت کی دعا فرمائیے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ لانے کے لئے کہا گیا " چنانچہ لوگوں نے چیزیں لانا شروع کیں، کوئی مٹھی بھر چنے لے کر آیا، کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا، اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا ، اس طرح اس دستر خوان پر کچھ تھوڑی سی چیزیں جمع ہو گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول برکت کی دعا فرمائی ، اور پھر ( سب لوگوں سے ) فرمایا لو ( جس کا جتنا جی چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لے ) چنانچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے ( جو تقریبًا ایک لاکھ مجاہدین پر مشتمل تھا ) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بھر بھی بہت سارا کھانا بچ رہا ۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور یاد رکھو ) ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ان دو گواہیوں کے ساتھ کہ جن میں سے اس کو کوئی شک وشبہ نہ ہو ، اللہ تعالیٰ سے جا کر ملے اور پھر اس کو جنت میں جانے سے روکا جائے ۔ " ( مسلم )
تشریح :
" تبوک " ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریبا ٤٦٥ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ، ماہ رجب سن ٩ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عزوہ کے لئے وہاں اسلامی لشکر لے کر گئے تھے کہا جاتا ہے کہ اس لشکر میں ایک لاکھ کے قریب مجاہدین اسلام شامل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سب سے آخری غزوہ تھا ۔
" جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا تھا ۔۔ الخ۔ " سے مراد حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ عام طور پر اہل لشکر غذائی سامان کی قلت کا شکار ہیں اور بہت سے لوگ بھوگے رہ رہے ہیں ، تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ان کی حاجت وضرورت سے زائد کچھ سامان خوراک ہوگا ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو ہدایت فرمائیے ، کہ وہ اس بچے ہوئے سامان خوراک کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجائیں ۔ دراصل اس روایت میں یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے ، پوری روایت یوں ہے کہ جب ( اہل لشکر کو سامان خوراک کی قلت کا سامنا کرنے پڑا اور ) لوگ بھوکے رہنے لگے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کر کے اپنی غذائی ضرورت پوری کر لیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی ، لیکن جب حضرت عمر کو یہ معلوم ہوا تو وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے لشکر کو سواریوں کی قلت کا ( زیادہ پریشان کن ) مرحلہ پیش آجائے گا ؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو ( اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دینے کے بجائے ) یہ حکم دیجئے کہ جس شخص کے پاس جو بچا ہوا توشہ ہو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔۔ الخ۔ " ۔
ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص ۔۔ الخ۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ جس شخص نے کامل یقین واعتقاد کے ساتھ تو حید ورسالت کی گواہی دی ( یعنی کملہ گو ہوا ) اور پھر ذرا بھی تشکیک وترد رکھے بغیر اسی یقین واعتقاد کے ساتھ اس حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو اس کو جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا ۔