مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 499

پانی کا ایک اور معجزہ

راوی:

وعن أبي قتادة قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال إنكم تسيرون عشيتكم وليلتكم وتأتون الماء إن شاء الله غدا فانطلق الناس لا يلوي أحد على أحد قال أبو قتادة فبينما رسول الله صلى الله عليه و سلم يسير حتى ابهار الليل فمال عن الطريق فوضع رأسه ثم قال احفظوا علينا صلاتنا فكان أول من استيقظ رسول الله صلى الله عليه و سلم والشمس في ظهره ثم قال اركبوا فركبنا فسرنا حتى إذا ارتفعت الشمس نزل ثم دعا بميضأة كانت معي فيها شيء من ماء قال فتوضأ منها وضوءا دون وضوء قال وبقي فيها شيء من ماء ثم قال احفظ علينا ميضأتك فسيكون لها نبأ ثم أذن بلال بالصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ركعتين ثم صلى الغداة وركب وركبنا معه فانتهينا إلى الناس حين امتد النهار وحمي كل شيء وهم يقولون يا رسول الله هلكنا وعطشنا فقال لا هلك عليكم ودعا بالميضأة فجعل يصب وأبو قتادة يسقيهم فلم يعد أن رأى الناس ماء في الميضأة تكابوا عليها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم أحسنوا الملأ كلكم سيروى قال ففعلوا فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يصب وأسقيهم حتى ما بقي غيري وغير رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم صب فقال لي اشرب فقلت لا أشرب حتى تشرب يا رسول الله قال إن ساقي القوم آخرهم شربا قال فشربت وشرب قال فأتى الناس الماء جامين رواء . رواه مسلم هكذا في صحيحه وكذا في كتاب الحميدي وجامع الأصول وزاد في المصابيح بعد قوله آخرهم لفظة شربا

" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک سفر کے دوران ) ہمارے سامنے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم اس رات کے اول حصہ میں اور آخر حصہ میں ( یعنی رات ) سفر کرو گے اور انشاء اللہ کہ تمہیں پانی مل جائے گا ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اس پانی کی طرف اشارہ فرمایا جو بطریق معجزہ حاصل ہونا تھا اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) چنانچہ تمام لوگ اس طرح ( بے تحاشا ) چلنے لگے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں تھی ( کیونکہ ہر شخص پر بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح جلد سے جلد پانی تک پہنچ جائے اور اس دھن میں نہ کسی کو کسی کا ساتھ پکڑنے کا خیال تھا اور نہ کوئی کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی طرف دھیان دے رہا تھا (بلکہ ہر شخص علیحدہ علیحدہ چلا جا رہا تھا ) ۔
ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( اسی رات میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چلے جا رہے تھے کہ جب آدھی رات گزر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( سونے کے ارادہ سے ) راستہ سے ہٹ کر ( ایک کنارے پر ) اتر گئے اور سر رکھ کر لیٹ گئے اور ، اور ( سونے سے پہلے کسی خادم کو ہدایت فرمائی کہ ہماری نماز کا خیال رکھنا ، کہیں ایسا نہ ہو کی سب لوگ بے خبر سو جائیں اور فجر کے وقت آنکھ نہ کھلنے کے سبب نماز قضاء ہو جائے ، لیکن ایسا ہی ہوا کہ سب لوگ بے خبر ہوگئے اور نیند کے غلبہ سے فجر کے وقت کسی کی بھی آنکھ نہیں کھلی ) پھر سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے جب کہ دھوپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر پڑنے لگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سب کو جگا کر ) فرمایا کہ فورا تیار ہو جاؤ ( اور یہاں سے چل دو ) چنانچہ ہم لوگ ( جلدی جلدی ) اپنی سواریوں پر بیٹھے اور وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ جب سورج ( ایک نیزہ کے بقدر یا اس سے زیادہ ) بلند ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( سواری ) سے اتر گئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا برتن منگایا جو میرے پاس تھا اور جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر وضو کیا ( یعنی جن اعضاء کو تین تین بار دھویا جاتا ہے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی قلت کے سبب ایک ایک بار یا دو دو بار ہی دھونے پر اکتفا کیا ) ۔ اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( وضو کے بعد ) ذرا سا اس برتن میں بچ گیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس برتن ( کے پانی ) کو حفاظت سے رکھنا ، اس لئے کہ عنقریب اب پانی سے ( بطریق معجزہ ) ایک ( اہم اور عظیم الشان ) بات ظہور پذیر ہوگی ( جس کا بڑا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا ) اس کے بعد بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز کے لئے اذان کہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( سنت کی ) دو رکعتیں پڑھ کر ( ہمراہی صحابہ کے ساتھ ) فجر کی قضاء نماز باجماعت ادا کی ۔ نماز سے فراغت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ہم بھی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے ( اور آگے کا سفر شروع ہوگیا ) یہاں تک کہ ہم ( قافلہ کے ان لوگوں سے جا ملے ( جو ہم سے کچھ آگے جا کر اترے تھے، اس وقت دن چڑھ چکا تھا اور سورج اوپر آگیا تھا جس سے ہر چیز تپنے لگی تھی لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو ہلاک ہوگئے ( یعنی گرم ہوا کے تھپیڑوں اور دھوپ کی تمازت نے ہمارا برا حال کر دیا ہے ) اور چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے ) پیاس ( کی شدت بڑھ رہی ہے ) ۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے ہلاکت نہیں ) ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے پانی کا وہی برتن طلب فرمایا اور اس برتن سے پانی ڈالنا شروع کر دیا اور ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو پلانا شروع کیا، اہل قافلہ نے جیسے ہی اس برتن سے پانی گرتے ( اور کچھ لوگوں کو پیتے ) دیکھا تو سب کے سب ایک دم ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی بے صبری دیکھ کر ) فرمایا: خوش اسلوبی اختیار کرو اور اخلاق سے کام لو ، تم سب مل کر اس پانی سے ) سیراب ہو جاؤگے ۔ "چنانچہ فورًا ہی ) سب لوگوں نے تنظیم وخوش اسلوبی اختیار کر ( اور الگ الگ ہو کر وقار و قطار کے ساتھ کھڑے ہوگئے ) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ لو پیو ، میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک نہیں پی سکتا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ پی لیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کا ساقی ان کا آخری آدمی ہوتا ہے ۔ " یعنی جو شخص لوگوں کو پلاتا ہے وہ خود سب کے بعد پیتا ہے کیونکہ یہ آداب میں سے ہے کہ ساقی جب سب کو سیراب کرلے تب خود پئے ، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ارشاد گرامی کی اتباع میں ) میں نے پی لیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا ۔ ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اہل قافلہ پانی ( کی جگہ ) پر اس حال میں پہنچے کہ سیراب تھے اور راحت پاچکے تھے ۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور صحیح مسلم میں اسی طرح منقول ہے ۔ نیز کتاب حمیدی اور جامع الاصول میں بھی یہ روایت ان ہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے ، البتہ مصابیح میں ، ساقی القوم اخرہم کے بعد شربا کا لفظ مزید ہے ۔ "

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آنکھ کھلتے ہی قضاء نماز نہیں پڑھی بلکہ اس کو کچھ مؤخر کر کے اس جگہ سے روانہ ہوگئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ پہنچ کر نماز پڑھنا چاہتے تھے ، جہاں پانی دستیاب ہو ، یا یہ وجہ تھی کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی وہ نماز کے لئے وقت کراہت تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کراہت کو نکالنے کے لئے نماز کو کچھ اور مؤخر کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے جیسا کہ پہلی روایت کے الفاظ فرکبنا فسرنا حتی اذا ارتفعت الشمس دلالت کرتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس جگہ سے فورا منتقل ہو جانا چاہئے جہاں حکم الٰہی کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہو یا کسی ممنوع بات کا ارتکاب ہو گیا ہو اگرچہ وہ ارتکاب قصدا نہ ہوا ہو ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی قضاء نماز ادا کرنے سے پہلے جو رکعتیں پڑھیں وہ سنتیں تھیں اور مسئلہ یہی ہے کہ اگر آنکھ نہ کھلنے یا کسی اور سبب سے فجر کی نماز وقت پر ادا نہ ہو سکے اور پھر اس کی قضاء زوال آفتاب سے پہلے ادا کی جائے تو اس کے ساتھ سنت کی دو رکعتیں بھی پڑھنی چاہئیں، ہاں اگر فرض نماز فوت نہ ہوئی ہو بلکہ صرف سنتیں فوت ہوئی ہوں تو اس کی قضا نہیں ہے لیکن امام محمد کا قول یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد زوال آفتاب سے پہلے فوت شدہ سنتوں کی قضاء نماز پڑھ لینی چاہئے ، گویا کسی بھی امام کے مسلک میں زوال آفتاب کے بعد اس کی قضاء نہیں ہے ۔
" فجر کی قضاء نماز ( باجماعت ) ادا کی " سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس بھی اپنے اپنے برتن تھے جن میں وہ اتنا پانی رکھتے تھے کہ اس وقت وضو کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس اتنا بھی پانی نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مختصر ہی وضو کر لیتے، لہٰذا انہوں نے تیمم کر کے نماز میں شرکت کی ، بہر حال اس سلسلہ میں حدیث کے الفاظ بالکل خاموش ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ باقی لوگوں نے وضو کیا یا تیمم کیا تھا ۔
" تم پر ہلاکت نہیں ہے " اس ارشاد کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو گویا تسلی وبشارت دی کہ گھبراؤ نہیں ، تمہیں کسی ہلاکت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیب سے پانی بھیجے گا ، اس اعتبار سے یہ جملہ خبریہ ہوا ، یا یہ کہ ارشاد دراصل جملہ دعائیہ تھا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویایہ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں ہلاکت سے دور رکھے اور عیب سے تمہاری سیرابی کا انتظام فرمائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں