مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 494

کجھوروں میں برکت کا معجزہ

راوی:

وعن جابر قال : توفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذو ا التمر بما عليه فأبوا فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فقلت : قد علمت أن والدي استشهد يوم أحد وترك عليه دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء فقال لي : " اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنهم أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون طاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال : " ادع لي أصحابك " . فما زال يكيل لهم حتى أدى الله عن والدي أمانته وأنا أرضى أن يؤدي الله أمانة والدي ولا أرجع إلى أخواتي بتمرة فسلم الله البيادر كلها وحتى إني أنظر إلى البيدر الذي كان عليه النبي صلى الله عليه و سلم كأنها لم تنقص تمرة واحدة . رواه البخاري

" اور حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی وفات ہوئی تو ان کے ذمہ بہت سا قرضہ تھا ، چنانچہ میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیشکش کی کہ ہمارے پاس جتنی کھجوریں ہیں وہ سب اس قرض کے بدلہ میں جو میرے والد پر تھا لے لیں ، لیکن انہوں نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا ( کیونکہ وہ قرض خواہ، جو یہودی تھے ان کھجوروں کو اپنے دیئے ہوئے قرض کے مقابلہ میں بہت کم جانتے تھے ) آخر کار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاصر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے میرے والد احد کی جنگ میں شہید ہوگئے ہیں اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( میرے پاس ) دیکھیں ( یعنی کوئی ایسی صورت ہو کہ جب قرض خواہ میرے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوں تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر میرے ساتھ کوئی رعایت کردیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ ڈھیری بنا لو : چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا کہ میرے پاس جتنی کھجوریں تھیں سب کو الگ الگ ڈھیریوں میں کر دیا ) اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لایا ۔ قرض خواہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا تو اس وقت انہوں نے فورا ایسا رویہ اختیار کر لیا جیسے وہ مجھ پر حاوی ہوگئے ہوں ( یعنی انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کلی یا جزوی طور پر قرض معاف کرنے کی ہمیں تلقین کریں گے یا کچھ اور دنوں تک صبر کرنے کا مشورہ دیں گے ، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی انہوں نے مجھ پر برسنا اور بڑے لب ولہجہ میں قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا اور اس طرح انہوں نے پہلے ہی سے اپنا ایسا رویہ ظاہر کیا جیسے وہ بتانا چاہتے ہوں کہ پورے قرض کی واپسی کے علاوہ اور کسی بات پر تیار نہیں ہیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان قرض خواہوں کا یہ رویہ دیکھا تو ( ان سے کچھ کہے بغیر ) کھجوروں کی سب سے بڑی ڈھیری کے گرد تین بار چکر لگایا اور پھر ڈھیری پر بیٹھ کر ( مجھ سے ) فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ ( جب وہ آگئے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس ڈھیری میں سے ناپ ناپ کر قرض خواہوں کو دینا شروع ہوا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کر دیا ، اگرچہ میری خوشی کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ان کھجوروں سے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کرادیتا خواہ اپنی بہنوں کے پاس لے جانے کے لئے ایک کھجور بھی باقی نہ بچتی لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے سے ) ساری ڈھیریوں کو محفوظ رکھا اور جس ڈھیری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو ایسا لگا کہ اس میں سے بھی ایک کھجور کم نہیں ہوئی ہے اور جب اس ڈھیری ہی میں سے کچھ کم نہ ہوا جس میں سے ان قرض خواہوں کو ان کے طالبہ کے بقدر دیا گیا تھا تو باقی ڈھیریاں بدرجہ اولی محفوظ وسالم رہیں ۔ " ( بخاری )

تشریح :
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد نے اپنے پسماندگان میں کئی بیٹیاں چھوڑی تھیں جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن ہوئی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ کھجوروں میں اپنے لئے یا اپنی بہنوں کے لئے میری کوئی خواہش نہیں تھی ، میں تو اس میں خوش تھا کہ کسی طرح میرے والد کا تمام قرضہ اتر جائے خواہ ہمارے لئے ان کھجوروں میں سے کچھ نہ بچے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کے طفیل ان کھجوروں کے ذریعہ نہ صرف میرے والد کا تمام قرضہ ادا کر دیا بلکہ تمام کجھورویں جوں کی توں بچ گئیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں