اسطوانہ حنانہ کا معجزہ
راوی:
وعن جابر قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا خطب استند إلى جذع نخلة من سواري المسجد فلما صنع له المنبر فاستوى عليه صاحت النخلة التي كان يخطب عندها حتى كادت تنشق فنزل النبي صلى الله عليه و سلم حتى أخذها فضمها إليه فجعلت تئن أنين الصبي الذي يسكت حتى استقرت قال بكت على ما كانت تسمع من الذكر . رواه البخاري
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( مسجد نبوی میں ) خطبہ ارشاد فرماتے تو کھجور کے اس سوکھے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے جو ایک ستون کے طور پر مسجد میں کھڑا تھا ، پھر جب منبر تیار ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھنے کے لئے اس ( منبر ) پر کھڑے ہوئے تو کھجور کا وہ تنا جس سے ( منبر بننے سے پہلے ) ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے چلانے لگا ( یعنی زور زور سے رونے لگا) اور قریب تھا کہ وہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کی اذیت کی شدت سے پھٹ جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( منبر سے ) اترے اور اس کے پاس جا کر اس کو ( ہاتھوں سے پکڑا اور پھر ( اس کو تسلی کے لئے ) اس کو گلے لگایا اس کے بعد تو اس ستون نے اس بچہ کی طرح رونا شروع کر دیا جس کو ( مختلف حیلوں تدبیروں سے ) چپ کرایا جاتا ہے ( اور وہ جلدی چپ نہیں ہوتا ) آخر کار اس ستون کو قرار آگیا اور وہ چپ ہو گیا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس ستون کے رونے کا سبب یہ ) بیان فرمایا : یہ ستون اس وجہ سے رویا کہ ( اللہ کا ) جو ذکر سنتا تھا اس سے محروم ہوگیا ہے " ( بخاری )
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ستون کھجور کے سوکھے تنوں کے تھے ، چنانچہ ابتدائی زمانہ میں جب کہ منبر شریف بن کر تیار نہیں ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے وقت انہی ستونوں سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے ، جب منبر تیار ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے اس ستون سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونے کے بجائے منبر پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون اپنی اس سعادت کی محرومی پر بلک بلک کر رونے لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر یعنی خطبہ کے وقت اس کو میرا جو قرب حاصل تھا اور نہایت قریب سے میرا جو خطبہ سنتا تھا اس سے محرومی نے اس کو رونے پر مجبور کر دیا ہے اس واقعہ کے بعد سے اس ستون کو اسطوانہ حنانہ کہا جانے لگا۔
یہ حدیث جس میں اس ستون کے رونے کا ذکر ہے ، جماعت صحابہ کرام کے اتنے متعدد طرف سے منقول ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں کیا جا سکتا اور بعض محدثین نے تو اس حدیث کو " متواتر " کہا ہے ، یہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا کہ کھجور کے سوکھے تنے جیسی بے جان چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی سعادت سے محرومی پر رونے لگی اور اس کے رونے کی آواز کو مسجد نبوی میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے کانوں سے سنا ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ اس حدیث کو بیان کرتے تو بے اختیار رونے لگتے تھے اور کہا کرتے تھے : لوگو ! کھجور کی سوکھی ہوئی لکڑی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق ومحبت میں روتی تھی تمہیں تو اس سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شوق ملاقات میں بے قرار ہونا چاہئے ۔
سنگے وگیا ہے کہ درد خاصیتے ہست
زآد میی دان کہ درد معرفتی نیست