دجال کا ذکر
راوی:
وعن فاطمة بنت قيس قالت سمعت منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى صلاته جلس على المنبر وهو يضحك فقال ليلزم كل إنسان مصلاه . ثم قال هل تدرون لم جمعتكم ؟ . قالوا الله ورسوله أعلم . قال إني والله ما جمعتكم لرغبة ولا لرهبة ولكن جمعتكم لأن تميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم به عن المسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر فأرفؤوا إلى جزيرة حين تغرب الشمس فجلسوا في أقرب سفينة فدخلوا الجزيرة فلقيتهم دابة أهلب كثير الشعر لا يدرون ما قبله من دبره من كثرة الشعر قالوا ويلك ما أنت ؟ قالت أنا الجساسة قالوا وما الجساسة ؟ قالت أيها القوم انطلقوا إلى هذا الرجل في الدير فإنه إلى خبركم بالأشواق قال لما سمت لنا رجلا فرقنا منها أن تكون شيطانة قال فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه أعظم إنسان ما رأيناه قط خلقا وأشده وثاقا مجموعة يده إلى عنقه ما بين ركبتيه إلى كعبيه بالحديد . قلنا ويلك ما أنت ؟ قال قد قدرتم على خبري فأخبروني ما أنتم ؟ قالوا نحن أناس من العرب ركبنا في سفينة بحرية فلعب بنا البحر شهرا فدخلنا الجزيرة فلقيتنا دابة أهلب فقالت أنا الجساسة اعمدوا إلى هذا في الدير فأقبلنا إليك سراعا وفزعنا منها ولم نأمن أن تكون شيطانة فقال أخبروني عن نخل بيسان قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال أسألكم عن نخلها هل تثمر ؟ قلنا نعم . قال أما إنها توشك أن لا تثمر . قال أخبروني عن بحيرة الطبرية قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل فيها ماء ؟ قلنا هي كثيرة الماء . قال أما إن ماءها يوشك أن يذهب . قال أخبروني عن عين زغر . قالوا وعن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل في العين ماء ؟ وهل يزرع أهلها بماء العين ؟ قلنا له نعم هي كثيرة الماء وأهله يزرعون من مائها . قال أخبروني عن نبي الأميين ما فعل ؟ قلنا قد خرج من مكة ونزل يثرب . قال أقاتله العرب ؟ قلنا نعم . قال كيف صنع بهم ؟ فأخبرناه أنه قد ظهر على من يليه من العرب وأطاعوه . قال لهم قد كان ذلك ؟ قلنا نعم . قال أما إن ذلك خير لهم أن يطيعوه وإني مخبركم عني إني أنا المسيح الدجال وإني يوشك أن يؤذن لي في الخروج فأخرج فأسير في الأرض فلا أدع قرية إلا هبطتها في أربعين ليلة غير مكة وطيبة هما محرمتان علي كلتاهما كلما أردت أن أدخل واحدة أو واحدا منهما استقبلني ملك بيده السيف صلتا يصدني عنها وإن على كل نقب منها ملائكة يحرسونها . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعن بمخصرته في المنبر هذه طيبة هذه طيبة هذه طيبة يعني المدينة ألا هل كنت حدثتكم ؟ فقال الناس نعم فإنه أعجبني حديث تميم أنه وافق الذي كنت أحدثكم عنه وعن المدينة ومكة . ألا إنه في بحر الشأم أو بحر اليمن لا بل من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو وأومأ بيده إلى المشرق . رواه مسلم . ( متفق عليه )
" اور حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن کی یہ آواز الصلوۃ جامعۃ نماز جمع کرنے والی ہے ) سن کر مسجد پہنچی اور پھر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد منبر پر تشریف فرماہوئے اس وقت ( حسب عادت آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " اللہ کی قسم میں نے تمہیں نہ تو کسی مرغوب چیز کے لئے جمع کیا ہے اور نہ کسی دہشت ناک کے لئے یعنی تمہیں یہاں روکنے کا مقصد نہ تو تمہیں کوئی چیز دینا ہے اور نہ کسی دشمن وغیرہ سے ڈرانا ہے بلکہ میں نے تمہیں اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری ، جو ایک نصرانی (عیسائی ) شخص تھا ، آیا اور مسلمان ہوا اور اس نے مجھ کو ایک ایسا واقعہ سنایا جو مسیح دجال کے بارے میں ان باتوں کے مطابق ہے جو میں تمہیں بتایا کرتا ہوں " چنانچہ میں نے مناسب جانا کہ تمیم داری کا وہ واقعہ تمہیں بھی سنا دوں تاکہ دجال کے بارے میں تمہارا یقین اور زیادہ پختہ ہوجائے اور میری بتائی ہوئی باتیں مشاہدہ کے قرین ہو جائیں تو سنو مجھ سے تمیم داری نے بیان کیا کہ وہ ایک ( دن ) قبیلہ جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہو کر روانہ ہوا تو پانی کی موج ایک مہینہ تک کشتی کے سواروں سے کھیلتی رہی ( یعنی کشتی سمندر کی ایک ایسی موج میں گھر گئی جو مسلسل ایک مہینہ تک اس کو ادھر ادھر لئے پھری اور اس نے سواروں کو منزل مقصود تک نہ پہنچنے دیا ) یہاں تک کہ اس موج نے کشتی کو ( ایک دن ) غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرہ کے قریب پہنچایا دیا اور سارے سوار ان چھوٹی کشتیوں میں کہ جو بڑی کشتی کے ساتھ تھیں بیٹھ کر اس جزیرہ میں پہنچ گئے ، وہاں انہیں ایک ایسا چوپایہ ملا جو بالوں والا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا پیچھا معلوم نہیں ہوتا تھا یعنی اس چوپایہ کے جسم پر اتنے زیادہ بال تھے کہ پورا جسم چھپ کر رہ گیا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا اگلا حصہ کونسا ہے اور پچھلا کونسا ) لوگوں نے ( اس کو دیکھ کر بڑی حیرت سے ) کہا کہ تجھ پر افسوس ، تو کون ہے ، اور کیا ہے ؟ یعنی آخر تیری اصل و ماہیت کیا ہے تو کوئی جن ہے یا انسان ہے ؟ ) اس چوپابہ نے جواب دیا کہ میں جاسوس اور خبر رساں ہوں تم لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلو جو دیر میں ہے کیونکہ اسے تمہاری خبریں سننے کا بہت شوق ہے تمیم داری نے بیان کیا کہ جب اس چوپایہ نے ہم سے ایک شخص کا ذکر کیا ( اور ہمیں اس کے پاس چلنے کو کہا ) تو ہمیں بڑا ڈر لگا کر وہ شخص کہیں انسان کی شکل وصورت میں شیطان نہ ہو ، بہر حال ہم تیزی کے ساتھ چل پڑے اور جب دیر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک سب سے بڑی ڈیل ڈول والا اور نہایت خوفناک آدمی موجود ہے ، اسی جیسی شکل وصورت کا آدمی ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، وہ نہایت مضبوط اس طرح بندھا ہوا تھا کہ اس کے ہاتھ گردن تک اور گھٹنوں کے درمیان سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیر سے جکڑے ہوئے تھے ہم نے (اس کو دیکھ کر بڑی حیرت کے ساتھ ) کہا کہ تجھ پر افسوس ہے ، تو کون ہے اور کیا ہے ؟ اس نے جواب میں کہا کہ جب تم نے مجھ کو پالیا اور معلوم کر ہی لیا ہے ( اور یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہو تو اب میں تم سے اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا اور سب کچھ بتا دوں گا لیکن پہلے ) مجھے اپنے بارے میں بتاؤ ( اور جو کچھ تم سے پوچھوں اس کا جواب دو) کہ تم کون ہو ( اور کہاں سے آئے ہو ؟ ) ہمارے لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم عرب کے لوگ ہیں بحری کشتی میں سوار ہوئے تھے ۔ ( اور اپنی منزل مقصود کی طرف جارہے تھے ) کہ سمندری طوفان نے ہمیں ایک مہینہ تک گھیرے رکھا ( اور ہماری کشتی کو یہاں لا چھوڑا ہم اس جزیرہ پر اتر گئے ، یہاں ہمیں ایک بالوں والا چوپایہ ملا اور اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں تم لوگ اس شخص کے پاس جاؤ جو دیر یعنی بڑے محل میں موجود ہے چنانچہ ہم بڑی تیزی کے ساتھ تیرے پاس چلے آئے اس نے کہا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان میں کھجوروں کے دو درخت ہیں ان پر پھل آتے ہیں یا نہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں پھل آتے ہیں ! اس نے کہا کہ جان لو جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہے جب بیسان کے کھجور کے درختوں پر پھل نہیں آئیں گے (گویا اس نے اس طرف اشارہ کیا کہ قیامت جلد ہی آنے والی ہے ) اس نے کہا کہ اب مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ کہ آیا اس میں پانی ہے یا نہیں ؟ ہم نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا یقینا عنقریب اس کا پانی ختم ہو جائے گا پھر اس نے پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رغر کے چشمہ میں پانی ہے یا نہیں اور وہاں کے لوگ اس چشمہ کے پانی کے ذر یعہ کھیتی باڑی کرتے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں اس چشمہ میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اسی پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اس کے بعد اس نے کہا کہ اب مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں بتاؤ اس نے کیا کیا ؟ ہم نے کہا کہ انہوں نے مکہ کو چھوڑ دیا ہے اور اب یثرب ( یعنی مدینہ ) کو ہجرت کر گئے ہیں اس نے پوچھا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں ! پھر اس نے پوچھا کہ انہوں نے اہل عرب سے کیا معاملہ کیا ؟ ہم نے اس کو بتایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان عربوں پر غالب آگئے ہیں جو ان کے قریب ہیں اور انہوں نے ان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں ، میں درحقیت مسیح یعنی دجال ہوں ، وہ زمانہ جلدہی آنے والا ہے جب مجھ کو نکلنے کی اجازت مل جائے گی ، اس وقت میں نکلوں گا اور چالیس دنوں تک زمین پر پھروں گا یہاں تک کوئی آبادی ایسی نہیں چھوڑوں گا جس میں داخل نہیں ہوں گا ، سوائے مکہ اور طیبہ یعنی مدینہ اور مکہ کے یہ دونوں شہر مجھ پر حرام قرار دیئے گئے ہیں یعنی ان دونوں میں داخل ہونا چاہوں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آجائے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی وہ فرشتہ مجھ کو اس شہر میں داخل ہونے سے روک دے گا ، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شہر کے تمام راستوں پر فرشتے مامور ہیں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں " راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تمیم داری کا یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد صحابہ پر اپنی یہ خوشی ظاہر کرنے کے لئے کہ دیکھو دجال کے بارے میں تمہیں جو کچھ بتایا کرتا تھا اس کی پوری پوری تصدیق وتائید اس واقعہ سے ہو جاتی ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شہروں پر مدینہ کی فضیلت وبڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے جوش میں ) اپنا عصاء مبارک منبر پر مار کر ( تین مرتبہ ) یہ فرمایا کہ یہ ہے طیبہ ، یہ ہے طبیہ یعنی مدینہ ( پھر فرمایا ) یاد رکھو ، کیا میں تمہیں یہی بات نہیں بتایا کرتا تھا (جو دجال کے بارے میں اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے ؟ ) صحابہ نے کہا کہ ہاں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اسی طرح کی بات بتایا کرتے تھے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن کے سمندر میں ، نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا، یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا ۔ " (مسلم )
تشریح
" الصلوۃ جامعۃ " کا جملہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور نماز کے لئے بلانے کے واسطے ہے تاکہ لوگ یہ سن کر ایک جگہ پہنچ جائیں اور جمع ہو جائیں جیسا کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسوف اور خسوف کی نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اس جملہ کے ذریعہ پکارا جاتا تھا! " سفینۃ " کو بحریۃ کی اضافت کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد اس بات سے احتراز کرنا ہے کہ ذہن خشکی کی کشتی یعنی اونٹ کی طرف منتقل نہ ہو کیونکہ اونٹ کو " سفینۃ البر " ( خشکی کی کشتی ) کہا جاتا ہے ، ویسے بعض حضرات نے کہا ہے " سفینہ بریہ " سے مراد بڑی سمندری کشتی ہے جس کو " پانی کا جہازبھی کہا جا سکتا ہے ۔
لفظ " اقرب " اصل میں قا رب کی جمع ہے اور قا رب اس ڈونگی یعنی چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں جو بڑی سمندری کشتی ( پانی کے جہاز ) میں رکھی رہتی ہے اور ساحل پر آنے جانے اور ان کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو بڑی کشتی یا جہاز کے ذریعہ انجام نہیں پاسکتے ۔
اس عجیب الخلقت جانورنے اپنا نام جساستہ یعنی جاسوسی کرنے والا اس اعتبار سے بتایا کہ وہ دجال کو خبریں اور معلومات پہنچایا کرتا تھا، واضح رہے کہ قرآن شریف میں جس " دابۃ الارض " کا ذکر آیا ہے وہ یہی جانور ہے ۔
" دیر " اصل میں عیسائیوں کی عبادت گاہ یعنی " گرجا " کو کہتے ہیں ویسے لغت کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ " دیر " راہبوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں ، بہر حال یہاں حدیث میں " دیر " سے مراد وہ بڑی عمارت ہے جس میں دجال تھا ۔
" بیسان " ملک شام میں ایک بستی کا نام ہے یا یمامہ میں ایک جگہ کا نام ہے ، لیکن مشرق الانور میں لکھا ہے کہ حدیث جسار میں ( جو یہاں نقل ہوئی ہے ) مذکور " بیسان " حجاز کے ایک شہر کا نام ہے اور دوسرا " بیسان " شام کے علاقہ میں واقع ہے ۔
جیسا کہ پیچھے بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے " بحیرہ " اصل میں " بحر " کی تصغیر ہے یعنی چھوٹا سمندر ، جس کو جھیل سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور " طبریہ " اردن کے ایک قصبہ کا نام سے ، فن حدیث کے مشہور امام طبرانی اس قصبہ کے رہنے والے تھے ۔
" زغر " ایک شہر کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے ، اس علاقہ میں رویئدگی بہت کم ہوتی ہے ۔
" مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی کے بارے میں بتاؤ " میں دجال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت صرف اہل عرب کی طرف ازراہ طنز کہ وہ خاص طور پر اہل عرب کے نبی ہیں یا یہ کہ جملہ تعزیمی پیرا یہ بیان ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ اس ملعون دجال کی اس باطل خیال کی ترجمانی مقصود تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نادانوں اور جاہلوں کے نبی ہیں ۔
ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے " دجال کی زبان سے اس بات کا نکلنا گویا اس کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وفضیلت کا اقرار تھا ۔ گویہ اقرار اضطرار بہی تھا اور اس کے سبب سے بھی تھا کہ اس وقت کفر کے اظہار اور دین سے انکار کی کوئی غرض بھی اس کے سامنے نہیں تھی، لہٰذا اس نے اپنے کفر وعناد کو پوشیدہ رکھنا ہی مناسب سمجھا، یا یہ بہی کہا جا سکتا ہے کہ اس جملہ میں " بہتری " سے اس کی مراد دنیاوی بھلائی وبہتر اور امن وسلامتی ہو۔
لا بل من قبل المشرق ماہو ( نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا ) میں حرف ما، نفی کے لئے نہیں ہے بلکہ زائد ہے ! اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت آنے کا وقت چونکہ اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ قیامت کی علامتوں اور نشانیوں کے ظاہر ہونے کے زمانوں اور اوقات کو بھی متعین نہیں فرمایا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعین طور پر وہ جگہ نہیں بتائی جہاں دجال مقید ہے ، صرف ترد و ابہام کے طور پر مذکورہ تین مقامات کی طرف اشارہ فرمایا البتہ آخری مقام کو ظن غالب کے ذریعہ ظاہر فرمایا لیکن اس کو بھی متعین نہیں کیا سوائے اس کے کہ کسی خاص جگہ وعلاقہ کے تعین کے بغیر اس سمت کی طرف اشارہ فرما کر چھوڑ دیا ۔ پس مذکورہ جملہ سے پہلے دو احتمال کی نفی اور تیسرے احتمال کا جو اثبات ہوتا ہے اس کے یہی معنی ہیں ! ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دو جگہوں کا ذکر فرما کر پہر ان کی جو نفی فرمائی تو اس کا سبب یہ تھا کہ دجال کا قید خانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہوگا ! اور تورپشتی نے " بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا " کی وضاحت میں کہا ہے کہ احتمال ہے کہ یہ جملہ خبر دینے کے طور پر ہو ، یعنی دجال مشرق کی جانب سے نکلے گا نیز اشرف نے کہا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دجال کے قید خانے کی جگہ کی تعین میں شک رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گمان میں تھا کہ وہ ان جگہوں میں سے کسی نہ کسی جگہ مقید ہے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس شک کی بنا پر جب شام کے سمندر اور یمن کے سمندر کا ذکر کیا تو اسی وقت وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین کے ساتھ معلوم ہوگیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظن غالب ہوا کہ اس کا قید خانہ مشرق میں کسی جگہ واقع ہے ، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دونوں جگہوں کی نفی فرما دی اور ان سے اعراض کرکے تیسری جگہ یعنی مشرق کا اثبات فرمایا ۔