کنکریوں کا معجزہ
راوی:
وعن سلمة بن الأكوع قال غزونا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم حنينا فولى صحابة رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما غشوا رسول الله صلى الله عليه و سلم نزل عن البغلة ثم قبض قبضة من تراب من الأرض ثم استقبل به وجوههم فقال شاهت الوجوه فما خلق الله منهم إنسانا إلا ملأ عينيه ترابا بتلك القبضة فولوا مدبرين فهزمهم الله عز و جل وقسم رسول الله صلى الله عليه و سلم غنائمهم بين المسلمين رواه مسلم
" اور حضرت سلمہ ابن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( کافروں سے جہاد کے لئے ) غزوہ حنین میں شریک تھے چنانچہ ( اس غزوہ میں ) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دشمن کے سامنے سے بھاگنے لگے اور کافروں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اترے اور زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھائی ( جس میں کنکریاں بھی تھیں ) پھر اس خاک ( اور کنکریوں ) کو کافروں کے منہ کے سامنے پھینک مارا اور فرمایا : خراب ہوئے ان کے منہ ( یا یہ کہ " خراب ہوں ان کے منہ " ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کوئی ایسا انسان پیدا نہیں کیا تھا ( یعنی اس وقت دشمنوں میں ایسا کوئی شخص نہیں تھا ) جس کی دونوں آنکھوں کو اللہ تعالیٰ نے اس ایک مٹھی خاک سے بھر نہ دیا ہو ، پھر تو سارے کافر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال کو (جو بطور غنیمت ہاتھ لگا ) مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ۔ " ( مسلم )
تشریح :
اس حدیث میں گویا تین معجزوں کا ذکر ہے ، ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک مٹھی مٹی کافروں کے منہ کی طرف ، پھینک ماری وہ ان سب کی آنکھوں تک پہنچ گئی ، دوسرے یہ کہ اتنی تھوڑی مٹی سے ان سب لوگوں کی آنکھیں بھر گئیں جن کی تعداد چار ہزار تھی اور تیسرے یہ کہ ظاہری طاقت کے بغیر محض اس مٹی اور کنکریوں کے ذریعہ اتنے بڑے لشکر کو شکست ہوگئی ۔