غزوہ حنین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت وپامردی ،
راوی:
وعن أبي إسحق قال قال رجل للبراء يا أبا عمارة فررتم يوم حنين قال لا والله ما ولى رسول الله صلى الله عليه و سلم ولكن خرج شبان أصحابه ليس عليهم كثير سلاح فلقوا قوما رماة لا يكاد يسقط لهم سهم فرشقوهم رشقا ما يكادون يخطئون فأقبلوا هناك إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ورسول الله صلى الله عليه و سلم على بغلته البيضاء وأبو سفيان بن الحارث يقوده فنزل واستنصر وقال أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب ثم صفهم . رواه مسلم . وللبخاري معناه وفي رواية لهما قال البراء كنا والله إذا احمر البأس نتقي به وإن الشجاع منا للذي يحاذيه يعني النبي صلى الله عليه و سلم
اور حضرت ابواسحٰق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی ) روایت کرتے ہیں ( ایک موقع پر ) ایک شخص نے حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی ) سے پوچھا کہ اے ابوعمارہ کیا (کیا یہ سچ ہے کہ ) آپ لوگ غزوہ حنین میں دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟ حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز پشت نہیں دکھائی تھی صرف اتنا ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ نوجوان صحابہ کرام کا جن کے پاس زیادہ ہتھیار نہیں تھے (اچانک ) ایک تیر انداز قوم (بنو ہوازن ) سے مقابلہ ہوگیا ، اس کے لوگ ایسے (خطرناک ) تیر انداز تھے کہ ان کا تیر کوئی زمین پر نہیں گرتا تھا (یعنی نشانہ خالی نہ جاتا تھا ) ان لوگوں نے نوجوان صحابہ کرام پر تیربرسانا شروع کیا تو ان کا کوئی تیرخطا نہیں کررہا تھا، اس وقت وہ نوجوان صحابہ دشمن کے سامنے سے ہٹ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت ) اپنے سفید خچر (دلدل ) پر سوار تھے اور ابوسفیان ابن حارث (خچر کی لگام پکڑے ہوئے آگے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ کا یہ پریشان کن نقشہ اور اپنے صحابہ کی سرآئیگی دیکھ کر ) خچر سے اترے اور اللہ تعالیٰ سے مدد اور فتح کی دعا کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بآواز بلند یہ بھی فرمایا : میں نبی ہوں ، اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔ اس کے بعد ( جب کہ اسلامی لشکر دشمن کے مقابلہ کے لئے از سر نو ہمت و ولولہ کے ساتھ مستعد ہوا اور مذکورہ نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مجاہدین کی صف بندی کی ۔ ( مسلم ) اور بخاری نے بھی اس مضمون کی روایت ( اپنے الگ الفاظ میں ) نقل کی ہے ۔
نیز بخاری ومسم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ براء ابن عازب نے کہا ، اللہ کی قسم جب لڑائی سخت ہوئی ، ( یعنی دشمنوں کا حملہ سخت ہو جاتا ہے اور ہم ہتھیاروں کی کمی یا کسی کمزوری کے سبب زیادہ دباؤ محسوس کرتے ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر اپنی حفاظت کرتے ( اور ذات گرامی کی برکت سے مدد ونصرت کے طلب گار ہوتے ) بلاشبہ اس وقت ہم میں زیادہ بہادر اور شجاع وہی شخص تھا جو ان کے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں آکر کھڑا ہو جاتا تھا ۔"
تشریح :
" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز پشت نہیں دکھائی تھی " ۔۔۔ حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جواب نہایت ہو شمندی وسمجھداری اور ذات رسالت کے تئیں انتہائی ادب واحترام پر مبنی تھا ، دراصل پوچھنے والے کا مطلب یہ تھا کہ کیا آپ سب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے ؟ اور " سب لوگ " میں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا سوال بھی پوشیدہ ہو سکتا تھا اس لئے حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے تو بڑے زور دار انداز اور واضح الفاظ میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو حقیقتًا پشت دکھائی تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں شامل تھے جو دشمن کے سامنے سے ہٹ آئے تھے اور جن پر صورۃ پشت دکھانے کا اطلاق ہو سکتا تھا ، پھر حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت کی اصل صورت حال کی وضاحت کی کہ ان لوگوں نے بھی حقیقتا پشت نہیں دکھائی تھی بلکہ ہوا یہ تھا کہ وہ چند نوجوان صحابہ کرام جن کے پاس کافی ہتھیار نہیں تھے جب دشمن کے مدمقابل ہوئے تو ان پر ایک ایسی جماعت نے نہایت شدت سے تیر برسانا شروع کر دیا جو تیر اندازی میں بہت ماہر اور کامیاب نشانہ باز تھی ان لوگوں کا کوئی تیر بھی خطا نہیں کر رہا تھا ، ایسی صورت میں ان نوجوان صحابہ کرام نے یہی مناسب سمجھا کہ بیکار اپنی جانیں گنوانے کے بجائے دشمن کے سامنے سے ہٹ جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دشمن کے خلاف کوئی دوسرا محاذ بنائیں ! پس دشمن کے سامنے سے وقتی طور پر ان کے لوٹ آنے کو پشت دکھانا یا فرار اختیار کرنا ہرگز نہیں کہا جاسکتا، وہ صرف مدد حاصل کرنے آئے تھے کہ کمک لے کر دشمن کے خلاف زیادہ مؤثر طور پر لڑ سکیں ۔ " یہاں اس پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں " پشت دے کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔" کے الفاظ ہیں " جب کہ حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صحابہ دشمن کے سامنے سے ہٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ۔ ان دونوں تعبیر بیان میں تضاد معلوم ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دشمن کے حملہ اور تیر اندازی کی شدت کے وقت شروع میں تو ایسا ہی دکھا دیا کہ جیسے اسلامی لشکر کے لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ، لیکن جب فورًا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو پکارنا شروع کیا جس سے اسلامی لشکر میں جوش اور ولولہ کی ایک نئی لہرپیدا ہوگئی تو اس طرح وہ عمل جو فرار کی صورت میں نظر آیا تھا بعد میں قرار واستقامت کی صورت میں بدل گیا پس حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو ابتدائی صورت حال کا نقشہ کھینچا اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد کی صورت حال بیان کی ۔
اور ابوسفیان ابن حارث ( خچر کی لگام پکڑے ہوئے ) آگے تھے ۔۔۔ اس حدیث کا یہ جملہ بھی بظاہر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے معارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکڑ رکھی تھی ، اور حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکاب تھامے ہوئے تھے ؟ لیکن حقیقت میں ان دونوں کے درمیان کوئی تضاد وتعارض نہیں ہے ۔ کیونکہ اس بات کو تناوب ( باری باری پکڑنے ) پر محمول کیا جا سکتا ہے ، یعنی کبھی تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لگام پکڑتے ہوں گے اور کبھی ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکاب تھامے رہتے ہوں گے اور کبھی حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ لگام پکڑ لیتے ہوں گے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا موقع آگیا ہو کہ دونوں حضرات کے لئے خچر کی لگام پکڑنا ضروری ٹھہرا ہو ، لہٰذا ان دونوں روایتوں میں الگ الگ ان دونوں حضرات کا ذکر کیا گیا ۔
میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں یہ انا النبی لا کذب انا ابن عبد المطلب کا ترجمہ ہے اور اس جملہ کے لفظ کذب اور مطلب کے ب پر جزم ہے ، جو اس جملہ کی شعری ترکیب پر دلالت کرتا ہے ، لیکن یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موزونی طبیعت کے تحت بلا قصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر بروزن شعر جاری ہو گیا تھا لہٰذا اس کو شعر نہیں کہا جا سکتا ۔ اس جملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ کی طرف نہ کر کے اپنے جد امجد عبد المطلب کی طرف کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ عزت وبزرگی میں عبد المطلب ہی زیادہ مشہور تھے ۔ نیز اس جملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جو تعریف کی تو یہ غروروتکبر یا اپنی ذات وحیثیت کی نا مناسب نمائش کے طور پر نہیں تھی بلکہ اس طرح کی تھی جیسے عام طور پر میدان جنگ میں غازی اور مجاہد دشمنوں کے سامنے اپنی شجاعت وجوانمردی کا اظہار کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر اور اس مقصد سے اپنی تعریف کرنا جائز ہے ۔
" اس وقت ہم میں زیادہ بہادر اور شجاع وہی شخص ۔۔ الخ۔ " یعنی اس وقت میدان جنگ کا نقشہ اتنا خطرناک اور دشمن کا حملہ اتنا خوفناک تھا کہ کوئی بھی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پامردی کے ساتھ جمے رہنے پر قادر نہیں تھا زیادہ سے زیادہ ایسا تھا کہ جو لوگ بہت زیادہ بہادر اور جوانمرد تھے وہ ادھر ادھر سے آکر اس جگہ پہنچنے کی کوشش کرتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اس طرح وہ لوگ اپنے اس حوصلہ کا اظہار کرتے تھے کہ وہ کسی بھی حال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ میں نہیں جائیں گے بلکہ ذات گرامی سے مدد وحوصلہ پا کر دشمن کے خلاف سینہ سپر ہوں گے ، اگر کوئی شخص بزدل ہوتا تو وہ یقینًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے بجائے وہاں سے بھاگ کھڑے ہونے ہی میں اپنی عافیت دیکھتا ۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ شجاعت وبہادری اور اللہ کی ذات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اعتماد اور بھروسہ کا اظہار ہوتا ہے ۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے خچر سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعا مانگی ( اور کنکریاں اٹھا کر دشمن کے منہ پر پھینک ماریں ) جس کے سبب اس طاقتور دشمن کو شکست فاش ہوئی ۔