آب دہن کی برکت سے خشک کنوں لبریز ہوگیا
راوی:
وعن البراء بن عازب قا ل : كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم أربع عشرة مائة يوم الحديبية والحديبية بئر فنزحناها فلم نترك فيها قطرة فبلغ النبي صلى الله عليه و سلم فأتاهافجلس على شفيرها ثم دعا بإناء من ماء فتوضأ ثم مضمض ودعا ثم صبه فيها ثم قال : دعوها ساعة " فأرووا أنفسهم وركابهم حتى ارتحلوا . رواه البخاري
" اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم چودہ سو افراد تھے ، حدیبیہ میں ایک کنواں تھا جس کا پانی ہم سب نے کھینچ کر استعمال کر لیا تھا اور اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں رہا تھا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا ( کہ کنواں خشک ہوگیا ہے اور پانی ختم ہو جانے کی وجہ سے لشکر کے تمام لوگ پریشان ہیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے بیٹھ گئے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے پانی کا برتن منگا کر وضو کیا اور وضو کے بعد منہ میں پانی لیا اور دعا مانگی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آب دہن کنویں میں ڈال دیا اور فرمایا کہ ساعت بھر کنویں کو چھوڑ دو ، اور پھر ، ( ایک ساعت کے بعد کنویں میں اتنا پانی ہو گیا کہ ) تمام لشکر والے خود بھی اور ان کے مویشی بھی اور جب تک وہاں سے کوچ کیا اسی کنویں سے پانی لیتے رہے ۔ " ( بخاری )
تشریح : حضرت جابر کی روایت میں پندرسو کی تعداد بیان کی گئی تھی جب کہ یہاں حضرت براء کی روایت میں چودہ سو کی تعداد بیان کی گئی ہے ، تو جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے ، اصل تعداد چودہ سو سے زائد اور پندرہ سو سے کم تھی روای نے کسر کو شمار کر کے بیان کیا اس نے پندرہ سو کی تعداد بیان کی اور جس راوی نے کسر کو چھوڑ دیا اس نے چودہ سو کی تعداد بیان کی ۔ یا یہ کہ اہل حدیبیہ چونکہ جماعتوں میں تقسیم تھے اور ایسا ہوتا تھا کہ پانی کے لئے کچھ جماعتیں آتی تھیں تو کچھ جماعتیں پانی لے کر چلی جاتی تھیں اس صورت میں کسی وقت تو مجموعی تعداد چودہ سو ہو جاتی تھی اور کسی وقت پندرہ سو ۔۔۔ ' لہٰذا جس راوی نے جو تعداد دیکھی اس کو بیان کردیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے پہلے کل تعداد پندہ سو تھی جس کو حضرت جابر نے جو بیان کیا اور جب براء نے بیان کیا تو اس وقت تعداد گھٹ کر چودہ سو ہوگئی تھی ، ایک قول یہ بھی ہے کہ ان میں سے کسی بھی راوی نے ایک ایک آدمی کو شمار کر کے یقینی تعداد نہیں بیان کی ہے بلکہ جس نے جو بھی تعداد بیان کی اندازہ اور تخمینہ کے طور پر بیان کی ہے کسی نے چودہ سو کا اندازہ لگایا تو کی نے پندرہ سو کا ۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس واقعہ سے کہ جس کو حضرت براء نے بیان کیا ہے ، پہلے کا ہے اور حدیبیہ میں اس طرح کے معجزے متعدد بار ظہور میں آئے لہٰذا تعددواقعہ کو دیکھتے ہوئے ان دونوں روایتوں میں بیان تعداد کا کوئی تضاد نہیں رہ جاتا ۔
" ساعت بھر کنویں کو چھوڑ دو " کا مطلب یہ تھا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے اس کنویں کو اسی طرح رہنے دو ، ابھی اس میں سے پانی نکالنے کا ارادہ نہ کر و ، کچھ دیر بعد جب کنواں بھر جائے گا تو اس میں سے پانی کھینچنا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشارہ فرمایا ہو کہ کنویں میں پانی بڑھ جانے کی جو دعا کی گئی ہے اس کی قبولیت کی ساعت بتدریج آئے گی ۔