انتباہ
راوی:
بلاشبہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی اس میں حضرت علی حق پر تھے اور جو لوگ بھی ان کی اطاعت سے باہر ہو جر جنگ کے لئے کمر بستہ ہو انہوں نے " خراج " کیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اس حدیث کو دیکھ کر اور اس کے محمول ومصداق کو جان کر حضرت معاویہ کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کریں اور ان کی ذات کو ہدف ملامت کریں ۔ راسخ العقیدہ اور صحیح الخیال مسلمان کے لئے صرف یہی نجات کی رہا ہے کہ اس نازک مسئلہ میں اپنی زبان کو روکے اور ان دونوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے ، حضرت معاویہ ایک جلیل القدر صحالی تھے اور دربار رسالت میں بڑی عزت واہمیت رکھتے تھے ، ان کی شان میں کوئی بھی ناز یبابات زبان سے نکالنا صحابی کی شان میں گستاخی کرنا ہے اور صحابی کی شان میں گستاخی کرنا اللہ کا عذاب مول لینا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : لوگو ! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، ان کو کبھی ہدف ملامت نہ بنانا ( یاد رکھوں !) جس شخص نے میرے صحابہ کو دوست رکھا اس نے مجھ سے محبت رکھنے کے سبب ان کو دوست رکھا اور جس شخص نے میرے صحابہ کو مبغوض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کے سبب ان کو مبغوض رکھا اور جس شخص نے میرے صحابہ کو ( اپنے قول وعمل سے ) ایذاء پہنچائی اس نے درحقیقت مجھ کو ایذاء پہنچائی اور جس شخص نے مجھ کو ایذاپہنچائی اس نے ( گویا ) اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس شخص نے اللہ کو ایذاء پہنچائی اس کو جلد ہی اللہ تعالیٰ عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ اس ارشاد گرامی کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کتاب میں بھی آگے فضائل صحابہ کے باب میں ایسی بہت سی احادیث آئیں گی ، نیز اس طرح کی بھی بہت حدیثیں منقول ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سکوت ہی میں بھلائی ہے ، ان میں سے یہی ایک حدیث سبق حاصل کرنے کے لئے بہت کافی ہے کہ من سکت سلم ومن سلم نجا
( جس نے سکوت اختیار کیا سلامت رہا اور جو سلامت رہا نجات پا گیا ) ۔ اس کے علاوہ بعض حدیثیں خود حضرت معاویہ کی فضیلت میں منقول ہیں ، جیسے پیچھے باب علامت النبوۃ میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت میرے سامنے پیش کی گئی جن کو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اور سمندر کی پشت پر اس طرح سفر کرتے ہوئے دکھا یا گیا جیسے وہ بادشاہوں کی مانند تخت پر بیٹھے ہوں ۔۔ الخ۔ ۔ عع اس حدیث کا مصداق یہی حضرت معاویہ اور ان کے لشکر والے تھے جنہوں نے سمندر پار کر کے کفار کے ساتھ جہاد کیا ۔ غرض یہ کہ حضرت معاویہ کی شان میں گستاخی کرنے ان سے بغض ونفرت رکھنے اور ان کو برابھلا کہنے سے پوری طرح اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ رفض وشیعت کے عقائد میں سے ہے اللہ تعالیٰ اس قسم کے برے عقیدہ سے محفوظ رکھے " بعض سنی بھی جہالت ونادانی کے سبب اس فتنہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور صحابی کے حق میں نہایت نازیبا الفاظ وخیال کا اظہار کرتے ہیں ! ملا علی قاری نے شرح ، فقہ اکبر میں صاف طور پر ( حضرت علی اور حضرت معاویہ سے متعلق ) اس معاملہ کو خطائے اجتہادی پر محمول کیا ہے ۔ پس اہل سنت کو تو خاص طور پر اس سلسلہ میں احتیاط کا دامن پکڑنا چاہئے ! اور اپنے دل کو کسی بھی صحابی کے بغض سے پاک رکھنا چاہئے خواہ ان کا تعلق اہل بیت نبوی سے ہو ، یا عام صحابہ کی جماعت سم ، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ارشاد پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زبان پر مہر سکوت لگا لینی چاہئے کہ :
لیحجرک عن الناس ما تعلم من نفسک
اور جب عام لوگوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ولا تذکر الناس الا بخیر ( لوگوں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ کر و ) تو صحابہ تو بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے تذکرے میں ایسا کوئی لفظ نہ آئے جس سے ان کی شان اور ان کی حیثیت پر حرف آتا ہو ، اور ایک بات یہ بھی یادر کھنی چاہئے کہ جن مقدس ، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم سب دور کریں گے اور سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے ، تو کیا یہ بدبختی نہیں ہے کہ ہم ان ہستیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کے ذریعہ اپنی زبانیں گندی کریں ۔