مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 466

حدیث کا مصداق

راوی:

شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کو پورا ہونا تھا اور وہ پوری ہوئی ۔ حضرت عمار ابن یاسر جنگ صفین میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے شریک ہوئے اور حضرت معاویہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس تنازعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کی موت باغیوں کے ہاتھوں ہوگی اور حضرت معاویہ کے گروہ نے انہیں قتل کر دیا ۔ ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب اس جنگ میں حضرت عمار شہید ہوگئے تو حضرت عمر وبن العاص جو حضرت معاویہ کے ساتھ تھے ، نہایت سراسیمہ ہوئے اور حضرت معاویہ کے پاس آکر کہنے لگے یہ تو بڑی پریشانی کی بات پیدا ہوگئی کہ عمار ہمارے لشکر کے ہاتھوں مارے گئے معاویہ نے کہا : کیوں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟ عمر و بن العاص نے کہا : میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمار سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تمہیں باغیوں کا گروہ قتل کرے گا ۔ معاویہ نے جواب دیا : تو عمار کو ہم نے کب قتل کیا ہے ، اصل میں تو علی نے ان کو مارا ہے وہی ان کو اپنے ساتھ جنگ میں لائے تھے ۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت معاویہ اس حدیث کے الفاظ تاویل کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ لفظ باغیہ ، یہاں بغی سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی بغاوت کے ہیں بلکہ بغاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھونڈ ھنا ، طلب کرنا ہیں اس اعتبار سے ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد تقتلک الفئۃ الباغیۃ کا ترجمہ یہ ہوا کہ ( عمار ) تمہیں مطالبہ کرنے والوں کا ایک گروہ قتل کرے گا ، مطلب یہ کہ جو گروہ قصاص اور خون بہا کا مطالبہ کرے گا ، اسی کے ہاتھوں عمار کا قتل ہوگا ، چنانچہ حضرت معاویہ کہا کرتے تھے کہ : نحن فئۃ باغیۃ طالبۃ لدم عثمان ( ہم مطالبہ کرنے والا گروہ ہیں ، جو حضرت عثمان کے خون بہا کا طالب ہے ) لیکن عقل ونقل کی روشنی میں حضرت معاویہ کی یہ تاویل نہیں بلکہ صریح تحریف ہے ۔ بعض روایتوں میں تو یہاں تک نقل کیا گیا ہے ۔ کہ جب حضرت عمر و بن العاص نے حضرت معاویہ کے سامنے مذکورہ پریشانی کا ذکر کیا تو معاویہ نے ان سے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو اپنے سے کمتر آدمی کے معاملہ میں پھسلے جاتے ہو یعنی عمار تو تمہارے مقابلہ میں ایک ادنی شخص تھے، پھر یہ کیا ہے کہ تم ان کا معاملہ لے کر تذبذب کا شکار ہوگئے ہو اور ہماری رفاقت سے الگ ہونا چاہتے ہو ۔ لیکن ملا علی قاری نے شیخ اکمل الدین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں حضرت معاویہ پر افتراء ہے ، انہوں نے نہ تو حدیث کی یہ تاویل کی ہے جو تحریف کے مرادف ہے اور نہ حضرت عمار کے بارے میں ایسی پست بات کہی ۔

یہ حدیث شیئر کریں