جنگ بدر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا
راوی:
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال وهو في قبة يوم بدر : " اللهم أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشأ لا تعبد بعد اليوم " فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله ألححت على ربك فخرج وهو يثب في الدرع وهو يقول : " [ سيهزم الجمع ويولون الدبر ] " . رواه البخاري
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر کے دن ایک خیمہ میں یہ دعا مانگ رہے تھے ۔ " اے اللہ !میں تجھ سے تیری امان مانگتا ہوں اور تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں اے اللہ ! اگر تو یہی چاہتا ہے ( کہ یہاں دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمان ہلاک ہو جائیں ) تو (روئے زمین پر کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا اور ) آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہوگی " جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گڑ گڑا کر یہ دعا مانگتے ہی رہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : یا رسول اللہ ! بس کیجئے اتنا ہی دعا مانگنا بہت کافی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت الحاح وزاری کے ساتھ اپنے پروردگار سے فتح ونصرت کی التجا کی ہے ۔ " اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے تھے ( فرط مسرت سے ) بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے اور یہ آیت ( جو اس وقت نازل ہوئی تھی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( بآواز بلند ) پڑھ رہے تھے ۔
(سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ) 54۔ القمر : 45)
" ( کفار کی ) یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔ اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے ۔"
تشریح :
" تیرے وعدہ کا ایفاء چاہتا ہوں " یہ آپ نے اس آیت (وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّا ى ِفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ ) 8۔ الانفال : 7) اور جب اللہ تعالیٰ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتے تھے کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی ) کی طرف اشارہ کیا جس میں حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر مسلمان کفار مکہ سے جنگ کو اختیار کریں گے تو انہیں اس جنگ میں فتح عطا کی جائے گی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو عارف باللہ تھے اور خوب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو وعدہ فرما لیتے ہیں اس کے خلاف نہیں ہوتا اور جب اللہ نے فتح کا وعدہ فرما لیا تھا تو وہ حاصل ہونی ہی تھی ایسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس دعا سے آپ کا مقصد اس حکم کی تعمیل تھا کہ بندہ کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد وتوفیق اور حصول مقصد کی دعا والتجا کرنی چاہئے خواہ اس مقصد کے حصول کا یقینی ہونا اس کو معلوم ہو یا نہ ہو ، دوسرے یہ کہ علم باللہ بجائے خود حق تعالیٰ سے خوف ، کا متقاضی ہونا ہے اور انبیاء علیہم السلام اس خوف سے خالی نہیں ہوتے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس خوف کے پیش نظر دعا کی ہو کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا ہے ، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ خود میری طرف سے کوئی ایسی چیز پیش آئے جو فتح ونصرت کی راہ کی رکاوٹ بن جائے اور حق تعالیٰ کی طرف سے وہ موعودہ فتح ونصرت رد کر دی جائے ۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نصرت کا وعدہ بیشک فرمایا تھا لیکن عطائے نصرت کا کوئی وقت متعین نہیں کیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر سے ڈرتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ وہ وعدہ آج ہی پورا ہو جائے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ شاید اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اس آیت (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ) 35۔فاطر : 16) اور اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ) 29۔ العنکبوت : 6) کے مفہوم کی طرف متوجہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی کامل بے پرواہی اور بے نیازی پر دلالت کرتا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حق تعالیٰ سے مدد ونصرت کی دعا فرمائی ۔ اسی بات کو امام غزالی نے بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس وادراک نہایت کامل تھا اور حق تعالیٰ کی شان بے نیازی اور اس کے سطوت وجلال کے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل وعرفان وسیع تر تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے وعدہ نصرت کے باوجود فتح کی دعا نہایت منت وسماجت کے ساتھ فرمائی جب کہ حضرت ابوبکر صدیق کی نظر محض حق تعالیٰ کے ظاہری وعدہ پر تھی اس لئے انہوں نے زیادہ دعا کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
اللہ تعالیٰ کے کے وعدہ پر پوار بھروسہ اور اعتماد رکھنے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کرنا اور اس دعا میں الحاح وزاری اختیار کرنا ایک خاص مقصد بھی رکھتا ہے ، اور وہ تھا صحابہ اور مجاہدین اسلام کے دل کو تقویت دینا ، ان کو ثابت قدم رکھنا اور ان میں ولولہ اور حوصلہ پیدا کرنا کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا یقینی طور پر مستجاب ہے ۔ خصوصا وہ دعا جو زیادہ سے زیادہ الحاح اور زاری سے ہو ۔ "
" فرط مسرت سے " بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خیمہ سے باہر آئے ۔۔ الخ۔ ۔ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خوف ورجاء کے درمیان تھے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ نازل ہوا کہ دشمنوں کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے تو رجاء ( امید ) کا پہلو غالب آگیا اور آپ کفار کے مقابلہ پر فتح کے احساس سے خوش ہوگئے ، اسلامی مجاہدین کو کفار کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری دینے کے لئے آپ مذکورہ آیت باواز بلند پڑھتے ہوئے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور یہ ایک معجزہ تھا کہ دشمنوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کی فتح کی بات جو اس وقت تک اللہ کے علاوہ اور کسی کے علم میں نہیں تھی ، آپ نے اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت واطلاع پاکر لوگوں کو بتا دی ۔