واقعہ معراج کا ذکر
راوی:
عن قتادة عن أنس بن مالك عن مالك بن صعصعة أن نبي الله صلى الله عليه و سلم حدثهم ليلة أسري به : " بينما أنا في الحطيم – وربما قال في الحجر – مضطجعا إذ أتاني آت فشق ما بين هذه إلى هذه " يعني من ثغرة نحره إلى شعرته " فاستخرج قلبي ثم أتيت بطست من ذهب مملوء إيمانا فغسل قلبي ثم حشي ثم أعيد " – وفي رواية : " ثم غسل البطن بماء زمزم ثم ملئ إيمانا وحكمة – ثم أتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار أبيض يقال له : البراق يضع خطوه عند أقصى طرفه فحملت عليه فانطلق بي جبريل حتى أتى السماء الدنيا فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل وقد أرسل إليه . قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح فلما خلصت فإذا فيها آدم فقال : هذا أبوك آدم فسلم عليه فسلمت عليه فرد السلام ثم قال : مرحبا بالابن الصالح والنبي الصالح ثم صعد بي حتى السماء الثانية فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وقد أرسل إليه ؟ قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح . فلما خلصت إذا يحيى وعيسى وهما ابنا خالة . قال : هذا يحيى وهذا عيسى فسلم عليهما فسلمت فردا ثم قالا : مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح . ثم صعد بي إلى السماء الثالثة فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وقد أرسل إليه ؟ قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح فلما خلصت إذا يوسف قال : هذا يوسف فسلم عليه فسلمت عليه فرد . ثم قال : مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح ثم صعد بي حتى أتى السماء الرابعة فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وقد أرسل إليه ؟ قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح فلما خلصت فإذا إدريس فقال : هذا إدريس فسلم عليه فسلمت عليه فرد ثم قال : مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح ثم صعد بي حتى أتى السماء الخامسة فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وقد أرسل إليه ؟ قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء ففتح فلما خلصت فإذا هارون قال : هذا هارون فسلم عليه فسلمت عليه فرد ثم قال : مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح ثم صعد بي إلى السماء السادسة فاستفتح قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وهل أرسل إليه ؟ قال : نعم . قال : مرحبا به فنعم المجيء جاء فلما خلصت فإذا موسى قال : هذا موسى فسلم عليه فسلمت عليه فرد ثم قال : مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح فلما جاوزت بكى قيل : ما بيكيك ؟ قال : أبكي لأن غلاما بعث بعدي يدخل الجنة من أمته أكثر ممن يدخلها من أمتي ثم صعد بي إلى السماء السابعة فاستفتح جبريل قيل : من هذا ؟ قال : جبريل . قيل : ومن معك ؟ قال : محمد . قيل : وقد بعث إليه ؟ قال : نعم . قيل : مرحبا به فنعم المجيء جاء فلما خلصت فإذا إبراهيم قال : هذا أبوك إبراهيم فسلم عليه فسلمت عليه فرد السلام ثم قال : مرحبا بالابن الصالح والنبي الصالح ثم رفعت إلى سدرة المنتهى فإذا نبقها مثل قلال هجر وإذا ورقها مثل آذان الفيلة قال : هذا سدرة المنتهى فإذا أربعة أنهار : نهران باطنان ونهران ظاهران . قلت : ما هذان يا جبريل ؟ قال : أما الباطنان فنهران في الجنة وأما الظاهران فالنيل والفرات ثم رفع لي البيت المعمور ثم أتيت بإناء من خمر وإناء من لبن وإناء من عسل فأخذت اللبن فقال : هي الفطرة أنت عليها وأمتك ثم فرضت علي الصلاة خمسين صلاة كل يوم فرجعت فمررت على موسى فقال : بما أمرت ؟ قلت : أمرت بخمسين صلاة كل يوم . قال : إن أمتك لا تستطع خمسين صلاة كل يوم وإني والله قد جربت الناس قبلك وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة فارجع إلى ربك فسله التخفيف لأمتك فرجعت فوضع عني عشرا فرجعت إلى موسى فقال مثله فرجعت فوضع عني عشرا فرجعت إلى موسى فقال مثله فرجعت فوضع عني عشرا فرجعت إلى موسى فقال مثله فرجعت فوضع عني عشرا فأمرت بعشر صلوات كل يوم فرجعت إلى موسى فقال مثله فرجعت فأمرت بخمس صلوات كل يوم فرجعت إلى موسى فقال : بما أمرت ؟ قلت : أمرت بخمس صلوات كل يوم . قال : إن أمتك لا تستطيع خمس صلوات كل يوم وإني قد جربت الناس قبلك وعالجت بني إسرائيل أشد المعالجة فارجع إلى ربك فسله التخفيف لأمتك قال : سألت ربي حتى استحييت ولكني أرضى وأسلم . قال : فلما جاوزت نادى مناد : أمضيت فريضتي وخففت عن عبادي " . متفق عليه
حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی ) حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور وہ حضرت مالک ابن صعصہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء اور معراج کی رات کے احوال و واردات کی تفصیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان کرتے ہوئے فرمایا : ' ' اس رات میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا اور بعض موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " حجر " میں لیٹنے کا ذکر فرمایا ۔ کہ اچانک ایک آنے والا ( فرشتہ ) میرے پاس آیا اور اس نے ( میرے جسم کے ) یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چاک کیا ۔ روای کہتے ہیں کہ " (یہاں سے یہاں تک " سے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد گردن کے گڑھے سے زیر ناف بالوں تک کا پورا حصہ تھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس فرشتہ نے اس طرح میرا سینہ چاک کر کے ) میرے دل کو نکالا ، اس کے بعد میرے سامنے سونے کا ایک دشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا اور اس میں میرے دل کو دھویا گیا ، پھر دل میں ( اللہ کی عظمت ومحبت یا علم وایمان کی دولت ) بھری گئی اور پھر دل کو سینہ میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ ( کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ ) کو زمزم کے پانی سے دھویا گیا ۔ اور پھر اس میں ایمان وحکمت بھرا گیا ، اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا ، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام براق تھا ( اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ ) جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا ، مجھے اس پر سوار کیا گیا ، اور جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمان دنیا ( یعنی پہلے آسمان ) پر پہنچا، جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو ( دربان فرشتوں کی طرف سے ) پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں پھر پوچھا گیا : اور تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا !محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس کے بعد سوال کیا گیا ! ان ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ( یا از خود آئے ہیں ) جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا بلائے ہوئے آئے ہیں ۔ تب ان فرشتوں نے کہا : ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت آدم علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ تمہارے باپ ( یعنی جد اعلی، آدم ہیں ان کو سلام کرو ۔ میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ! میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اور دوسرے آسمان پر آئے ، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام میں ہوں ۔ پھر پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب دربان فرشتوں نے کہا : ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یحیی اور عیسی علیہ السلام کھڑے ہیں جو ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ یحیٰی ہیں اور یہ عیسیٰ ہیں ان کو سلام کرو ۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور دونوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اوپر چلے اور تیسرے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں تیسرے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ یوسف ہیں ، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چوتھے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چوتھے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ادریس علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ ادریس ہیں ، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا ، اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : میں نیک بخت بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اوپر چلے اور پانچویں آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں پانچویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ ہارون ہیں ، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چھٹے آسمان پر آئے انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چھٹے آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ موسیٰ ہیں ، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : میں نیک بھائی اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جب میں آگے بڑھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام رونے لگے ، پوچھا گیا : آپ کیوں روتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بنا کر دنیا میں بھیجا گیا اس کی امت کے لوگ میرے امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے ۔ بہر حال ( اس چھٹے آسمان سے گزر کر ) جبرائیل علیہ السلام مجھ کو لئے اوپر چلے اور ساتویں آسمان پر آئے ، انہوں نے آسمان کا دروزاہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ پھر پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا : ان کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں، آنے والے کو آنا مبارک ہو ۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ تمہارے باپ ( مورث اعلی ابراہیم علیہ السلام ہیں ، ان کو سلام کرو میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا : میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔
اس کے بعد سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا ، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے ( بڑے بڑے ) مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے، جبرائیل علیہ السلام نے ( وہاں پہنچ کر ) کہا : یہ سدرۃ المنتہی ہے ! میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں ، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی تھیں ، میں نے پوچھا : جبرائیل ! یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا : یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا ، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا ( اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جس چیز کا پیالہ پسند ہو لے لوں ) چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا ، جبرائیل علیہ السلام نے ( یہ دیکھ کر کہ میں نے دودھ کا پیالہ کو اختیار کیا ) کہا : دودھ فطرت ہے اور یقینا تم اور تمہاری امت کے لوگ اسی فطرت پر ( قائم وعامل ) رہیں گے ( اور جہاں تک شراب کا معاملہ ہے تو وہ ام الخبائث اور شر وفساد کی جڑ ہے ) اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ( ایک دن اور ایک رات کی ) پچاس نمازیں فرض کی گئیں ۔ پھر ( جب ملاء اعلی کا میرا سفر تمام ہوا اور درگاہ رب العزت سے ) میں واپس ہوا تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رخصت ہو کر چھٹے آسمان پر ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا ( اور ان سے رخصت ہونے لگا ) تو انہوں نے پوچھا : تمہیں کس عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ ( ہر شب وروز میں ) پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ( یہ سن کر ) کہا تمہاری امت ( نسبتاً کمزور قویٰ رکھنے کے سبب یا کسل وسستی کے سبب ) رات دن میں پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکے گی ، اللہ کی قسم ، میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں ( کہ عبادت الٰہی کے راستہ میں مشقت وتعب براداشت کرنا ان کی طبیعتوں پر کس قدر بار تھا ) اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت ترین کوشش کر چکا ہوں ( لیکن وہ اصلاح پذیر نہ ہوئے باوجودیکہ ان کے قوی تمہاری امت کے لوگوں سے زیادہ مضبوط تھے ، تو پھر تمہاری امت کے لوگ اتنی زیادہ نمازوں کی مشقت کیسے برداشت کر سکیں گے لہٰذا تم اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے حق میں تخفیف اور آسانی کی درخواست کرو ۔ چنانچہ میں ( اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ) دوبارہ حاضر ہوا اور میرے پروردگار نے میرے عرض کرنے پر ( دس نمازیں کم کر دیں ، میں پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا ( اور ان کو بتایا کہ دس نمازیں کم کر کے چالیس نمازیں رہنے دی گئی ہیں ) لیکن انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ( کہ میں پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں ، تمہاری امت کے لوگ چالیس نمازیں بھی ادا نہیں کر سکیں گے ، اب پھر بارگاہ رب العزت میں جا کر مزید تخفیف کی درخواست کرو ( چنانچہ میں پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( چالیس میں سے ) دس نمازیں کم کر دی گئیں ، میں پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ، چنانچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور ( تیس میں سے ) دس نمازیں کم کر دی گئیں ، میں پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ، چنانچہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا اور مزید پانچ نمازوں کی تخفیف کر کے مجھ کو ہر شب و روز میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ، پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ اب تمہیں کیا حکم ملا ہے ؟ میں نے ان کو بتایا کہ اب مجھے رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا : حقیقت یہ ہے کہ تمہاری امت کے اکثر لوگ ( پوری پابندی اور تسلسل کے ساتھ ) دن رات میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ پائیں گے ، حقیقت یہ ہے کہ میں تم سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں ( وہ تو اس سے بھی کہیں کم عبادت الٰہی پر عامل نہیں رہ سکے تھے ) لہٰذا تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی ) تخفیف کی درخواست کر و ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ اس موقع پر میں حضرت موسی علیہ السلام سے کہا ) کہ میں باربار اپنے پروردگار سے تخفیف کی درخواست کر چکا ہوں ، اور مجھ کو شرم آتی ہے ( اگرچہ امت کی طرف سے پانچ نمازوں کی بھی پابند نہ ہوسکنے کا گمان ہے مگر مزید تخفیف کی درخواست کرنا اب میرے لئے ممکن نہیں ہے ) میں اپنے پروردگار کے اس حکم کو ( برضاء ورغبت ) قبول کرتا ہوں ( اور اپنا اور اپنی امت کا معاملہ اس کے سپرد کردیتا ہوں کہ وہ اپنی توفیق ومدد سے امت کے لوگوں کو ان پانچ نمازوں کی ادائیگی کا پابند بنائے ) ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام سے اس گفتگو کے بعد ) جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) یہ ندائے غیبی آئی : میں نے ( پہلے تو ) اپنے فرض کو جاری کیا اور پھر ( اپنے پیارے رسول کے طفیل میں اپنے بندوں کے حق میں تخفیف کر دی ( مطلب یہ کہ اب میرے بندوں کو نمازیں تو پانچ ہی پڑھنی پڑیں گی لیکن ان کو ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
" حطیم " خانہ کعبہ کی شمالی دیوار سے ڈیڑھ گز کے فاصلہ پر ایک ہلالی شکل کی دیوار ہے ، اس دیوار کے اندر کا حصہ حطیم کہلاتا ہے ، اور حجر ( ح کے زیر کے ساتھ ) بھی حطیم کو کہا جاتا ہے یہ جگہ ( یعنی حطیم یا حجر اصلًا خانہ کعبہ کا حصہ ہے ۔ معراج کی رات میں جب کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے کے لئے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ استراحت فرما تھے ۔
" یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چیرا ۔ " شق صدر ( سینہ مبارک کے چاک کئے جانے ) کا یہ واقعہ اس کے علاوہ ہے جو بچپن میں پیش آیا تھا ، اس وقت ( بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے چاک کئے جانے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر سے وہ مادہ نکالنا تھا جس کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرنے کا موقعہ شیطان کو ملتا ہے یا جس کے سبب خود انسان کا نفس گمراہی اور برائی میں مبتلا ہوتا ہے ، اور اس موقع پر ( معراج کی رات میں ) شق صدر کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں علم ومعرفت کا کمال بھرنا تھا ۔
" سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا ۔ " یہ کنایہ اور تمثیل کے طور پر کہا گیا ہے یا یہ کہ ایمان کو ظاہری جسم دے کر واقعتاً اس طشت میں بھرا گیا ، جیسا کہ قیامت کے دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا تاکہ ان کو میزان میں تولا جا سکے ۔
" اس کا نام براق تھا ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے مخصوص اس جانور کا نام " براق " اس مناسبت سے رکھا گیا کہ وہ برق ( بجلی) کی طرح تیز رفتار اور روشنی کی طرح چمکدار تھا ۔ اس کی تیز رفتاری کے بارے میں جو یہ فرمایا کہ اس کا ایک قدم حد نظر پر پڑتا تو اس سے بعض حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ براق ایک ہی قدم میں آسمان پر پہنچ گیا ہوگا کیونکہ زمین سے اس کی حد نظر آسمان ہی تھا، اس اعتبار سے ساتویں آسمان تک وہ سات قدموں میں پہنچا ہوگا ۔ اس براق کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ براق تمام انبیاء علیہم السلام کی سورای کے لئے متعین تھا اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہر نبی کے لئے اس کی حیثیت ومرتبہ کے مطابق الگ الگ براق تھے ۔ جیسا کہ آخرت میں ہر نبی کے لئے اس کے مرتبہ ومقام کے مطابق الگ الگ حوض بنے ہوئے ہیں ، چنانچہ حدیث کے اس جملہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ براق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لئے مخصوص ومتعین تھا ۔
" مجھے اس پر سوار کیا گیا ۔ " اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس براق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سوار ہونا محض اللہ تعالیٰ کی مدد اور قدرت سے ممکن ہوا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنی قوت ملکیت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس براق پر سوار کرایا تھا ، اور یہ بات بعید از امکان اس لئے نہیں ہوسکتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک فیض الہٰی پہنچنے کا اصل ذریعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی تھے ، اور اس سفر معراج میں بھی ان کی حیثیت اس رفیق سفر اور خادم کی تھی جس کا مقصد ہر طرح کی راحت ومدد پہنچانا ہوتا ہے ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب پکڑ رکھی تھی اور میکائیل علیہ السلام براق کی باگ تھامے ہوئے تھے ۔
یہاں تک کہ میں آسمان دنیا پر پہنچا۔ " اس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری ہی کے ذریعہ آسمان میں داخل ہوئے ۔ نیز جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ اس شبہ سے الگ ایک دوسری شب میں پیش آیا تھا جس میں صرف اسراء یعنی بیت المقدس تک کا سفر پیش آیا تھا اور جس کو " لیلۃ الاسراء " ( اسراء کی رات ) کہا جاتا ہے ، وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس روایت میں بیت المقدس تک کے سفر کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مسجد حرام سے براق پر سوار ہو کر روانہ ہونے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسراء یعنی بیت المقدس تک کے سفر کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مسجد حرام سے براق پر سوار ہو کر روانہ ہونے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسراء یعنی بیت المقدس تک کا سفر ایک دوسری شب میں بیش آیا تھا اور اس حدیث میں جس شب کا ذکر کیا جارہا ہے اس میں صرف معراج پیش آئی تھی ۔ معراج کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے تو براق پر سوار تھے یا سیڑھی کے ذریعہ عروج وصعود فرمایا ؟ اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ براق پر سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے ، جب کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے ، کہ آسمان تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عروج وصعود سیڑھی کے ذریعہ ہوا ۔ لہٰذا ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے روایتوں کے اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے لکھا ہے کہ یہاں اس روایت میں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے اور واقعہ کی تفصیل ذکر کرنے کے بجائے اجمال پر اکتفاء کیا تفصیلی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء کرام اپنے براقوں کو باندھتے تھے ، بیت المقدس کے مشاغل ( جیسے انبیاء کرام کو نماز پڑھانا اور ان سے ملاقات وغیرہ ) سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف عروج وصعود فرمایا اور یہ عین ممکن ہے کہ سیڑھی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے ہوں اور براق بدستور مسجد اقصی ( بیت المقدس ) کے دروازہ پر بندھا رہا ۔ پس راوی نے اس درمیانی تفصیل کو حذف کر کے بس آسمان پر پہنچنے کا ذکر کر دیا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر بندھا رہا ۔ پس راوی نے اس درمیانی تفصیل کو حذف کر کے بس آسمان پر پہنچنے کا ذکر کر دیا ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر ہی سیڑھی کے ذریعہ آسمان پر تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں تمام روایتیں متفق ہو جاتی ہے ۔
" پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : میں جبرائیل ہوں ۔ " اس سے معلوم ہوا کہ آسمان میں حقیقۃ دروازے ہیں اور ان دروازوں پر دربان مقرر ہیں نیز کہا جاتا ہے کہ وہ دروازے بیت المقدس کے محاذات میں ہیں ۔ حدیث کے اس جملہ سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی کے گھر جا کر دروازے پر آواز یا دستک دی جائے اور گھر کے اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں صرف یہ نہ کہا جائے کہ " میں ہوں ۔ " جیسا کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہے اور اس کی ممانعت منقول ہے بلکہ اپنا نام لے کر جواب دیا جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے " میں زید ہوں ۔ "
" ان کو سلام کرو " کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام میں سبقت ( پہلے سلام کرنے ) کا حکم اظہار تواضع وشفقت کی تعلیم کے طور پر تھا کیونکہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عالی مرتبہ ومقام حاصل ہوا تھا جس سے بلند وبرتر مرتبہ ومقام کا تصور بھی کسی اور کے لئے نہیں کیا جاسکتا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا ، کہ تواضع وانکساری اور شفقت ومحبت کا اظہار کریں اور سلام میں سبقت اس کا بہترین ذریعہ تھا ۔ نیز بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان ابنیاء کرام علیہم السلام کے پاس سے گذر رہے تھے اور اس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے حکم میں تھے جو کھڑا ہوا ، اور ابنیاء علیہم السلام اپنی اپنی جگہ پر پہلے سے موجود وبرقرار تھے ، اور اس اعتبار سے وہ اس شخص کے حکم میں تھے جو بیٹھا ہو ، اور اصول یہ ہے کہ اگر ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک شخص بیٹھا ہو ، تو کھڑا ہوا شخص پہلے سلام کرے اگرچہ وہ بیٹھے ہوئے شخص سے افضل ہو ، لہٰذا ان انبیاء کرام علیہم السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے سلام کرنا اس اشکال کو لازم نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اس لئے سلام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سبقت کا حکم کیوں دیا گیا ۔
" میں نیک بخت بیٹے اور پیغمبر صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ " نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام بلکہ حدیث میں مذکور تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسقبال کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتعریف میں صلاح یعنی نیک بختی کا ذکر کیا ، اس سے معلوم ہوا کہ نیک بختی وعظیم مرتبہ وہ بلند ترین مقام ہے جو تمام انسانی واخلاقی خوبیوں اور بھلائیوں کا مجموعہ ہے ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ صالح یعنی نیک بخت وہ شخص ہے جو اللہ اور اللہ کے بندوں کے تمام لازمی حقوق کی ادائیگی پر عامل وقائم ہو، نیز اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا اصل وصف صلاح ہی بیان کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا : وکل من الصالحین ۔ اور ۔ وکلا جعلنا صالحین ۔
" اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے ۔ " کے تحت علماء نے لکھا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے رونے کا جو یہ سبب بیان کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی فضیلت وبڑائی کی بنا پر حضرت موسی علیہ السلام کے دل میں حسد یا جلن جیسی کوئی چیز تھی ، کیونکہ حسد اور جلن تو وہ برا جذبہ ہے جس سے عام مؤمنین کے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس جہاں ( آخرت ) میں تو معمولی درجہ کے اہل ایمان کے دلوں میں سے بھی یہ برا جذبہ نکال باہر کیا جائے گا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام جیسی عظیم ہستی اس برے جذبہ میں مبتلا ہوتی جس کو حق تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنایا ، منصب نبوت ورسالت پر فائز کیا اور شرف تکلم سے سر فراز فرمایا ۔ لہٰذا کہا جائے گا کہ اس موقع پر حضرت موسی علیہ السلام کا رونا اس حسرت وافسوس کے سبب تھا کہ ان کی امت کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام وتعلیمات کی مخالفت کر کے اور سرکشی و نافرمانی کے راستہ پر جمے رہ کر اپنی مجموعی اور ملی حیثیت کو زبردست نقصان پہنچایا جس کا اثر یہ ہوا کہ خود حضرت موسی علیہ السلام کا وہ اجر وانعام جاتا رہا جس سے ان کے مراتب ودرجات کی ترقی کا راستہ کھلا رہتا ، اس طرح ان کی امت کے لوگوں نے اپنا ہی نقصان نہیں کیا بلکہ اپنے پیغمبر ( حضرت موسی علیہ السلام ) کے اجرو ثواب کے نقصان کا سبب بھی بنی کیونکہ ہر پیغمبر کو اس شخص کا ثواب ملتا ہے جو اس کی متابعت کرتا ہے اور جن لوگوں کو خود ثواب نہ ملتا ہو وہ اپنے پیغمبر کے اجرو ثواب میں اضافہ اور ترقی کا باعث کیسے بن سکتے ہیں جو ایک طرح سے اس پیغمبر کے حق میں نقصان ہے ، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام کی امت کے لوگ ان کی بات مان کر سرکشی اور گناہ کے راستہ سے بچنے اور اللہ کی طاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلتے تو حضرت موسی علیہ السلام کو بھی وہی ثواب ملتا جس کے حقدار ان کی امت کے لوگ ہوتے کیونکہ جتنا ثواب اس شخص کو ملتا ہے جو کوئی نیک عمل کرتا ہے ، اتنا ہی ثواب اس نیک عمل کی راہ دکھانے والے کو بھی ملتا ہے ، پس قوم موسیٰ کی سرکشی اور نافرمانی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملنے والا یہ اجروثواب جاتا رہا ، اس کے برخلاف جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بلند ومراتب کو دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اطاعت و فرمانبرداری کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والے تھے تو وہ اپنے اجرو ثواب کی محرومی پر از راہ تاسف رو پڑے ۔
بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کا رونا دراصل اپنی قوم کی قابل رحم حالت پر حسرت افسوس اور شفقت ومحبت کا بیساختہ اظہار تھا ، جب انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو میری امت کے لوگ ہیں جن کو اللہ نے بڑی بڑی عمر دی ۔ مضبوط قوی سے نوازا ، کا رگا۔ حیات میں زیادہ طویل عرصہ تک مصروف عمل رہنے کا موقعہ دیا لیکن انہوں نے نہ تو میری اتباع سے وہ فائدہ اٹھایا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ چھوٹی چھوٹی عمر اور کمزور قوی رکھنے کے باوجود اپنے پیغمبر کے اتباع کی صورت میں اٹھائیں گے اور نہ میری امت کے لوگ اس کثرت کو پہنچ سکے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو نصیب ہوگی تو اس شفقت کی تحت کہ جو کسی بھی دوسرے تعلق اور رشتہ سے کہیں زیادہ اپنی امت کے تئیں ایک پیغمبر کے دل میں ہوتی ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام رونے لگے ، ان کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسی مبارک ساعت ہے جس میں حق تعالیٰ کا دریائے رحم وکرم جوش میں ہے ، شاید اللہ تعالیٰ اس مبارک ساعت کی برکت سے اس وقت میری امت پر بھی رحم فرمادے اور ان کے ساتھ وہ سخت معاملہ نہ کرے جس کے وہ مستوجب ہو چکے ہیں ۔
اور بعض حضران نے لکھا ہے ! اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رونے کا مقصد ہمارے حضرات صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو خوش کرتا تھا ، یعنی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زبان حال سے گویا یہ اعتراف واظہار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بابعداروں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور جنت میں جتنے لوگ دوسری امتوں کے داخل ہوں گے ان سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی جنت میں جائیں گے ۔ واضح رہے کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ کہا " ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بنا کر دنیا میں بھیجا گیا الخ " تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقارت یا توہین مقصود نہیں تھی بلکہ یہ جملہ ( جس میں " غلام " کا لفظ استعمال کیا ) اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال کرم پر اظہار تعجب کی طور پر تھا ، یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ کہتے ہیں : پروردگار کی قدرت کی بڑائی کے کیا کہنے ، اس نے اس نوجوان کو اس چھوٹی سی عمر میں وہ مرتبہ فضل عطا فرمایا جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو بڑی بڑی عمر میں نصیب نہیں ہوا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے " غلام " (نوجوان " کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے اعتبار سے ہی استعمال کیا ہو کیونکہ اس وقت انبیاء کرام کی ان عمروں کی بہ نسبت کہ جو وہ دنیا میں گذار کر آئے تھے اور پھر جتنا طویل عرصہ ان کو عالم بزرخ میں گذارتے ہوگیا تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر یقینا بہت چھوٹی تھی اور ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل نوعمر تھے ۔
یہاں سوال ہوتا ہے کہ آسامنوں میں جن انبیاء کرام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کرائی گئی وہ جسم وروح کے ساتھ وہاں موجود تھے یا ان کی موجودگی محض روحانی تھی ؟ اگر وہ جسم ورو کے ساتھ وہاں موجود تھے تو پھر یہ اشکال لازم آتا ہے کہ ان کے اجسام تو قبروں میں ہیں ، آسمانوں میں ان کی موجودگی کیسے تھی ؟ اس سلسلہ میں علماء نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان انبیاء کرام کے اجسام اصلیہ تو قبروں ہی میں رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو اجسام مثالیہ کے ساتھ مشتمل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے جمع کیا البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر جسم اصلی کے ساتھ دیکھا کیونکہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ، اسی طرح حضرت ادریس علیہ السلام کو جسم اصلی کے ساتھ دیکھا وہ بھی آسمان پر زندھ اٹھائے گئے تھے ۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز ہی انبیاء کے لئے ان انبیاء کرام کو مع اجسام عنصریہ کے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) اور آسمانوں میں جمع کیا ، اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو ان کے اجسام اصلی کے ساتھ دیکھا ، اور اللہ کی قدرت کے آگے کچھ محال نہیں تھا کہ ایک شب کے لئے ان انبیاء کے اجسام عنصریہ ان کی قبروں سے بیت المقدس ، اور پھر آسمانوں پر جمع کئے گئے اور پھر ان کو ان کی قبروں میں واپس کر دیا گیا ۔
ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں میں ان ہی چند حضرات انبیاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے کیوں مخصوص کیا گیا اور یہ کہ انبیاء میں سے ہر نبی کو ایک آسمان کے ساتھ کس سبب سے مخصوص کیا گیا اور اس میں کیا حکمت تھی ؟ اس بارے میں علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان ہی چند حضرات انبیاء سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کرانے اور ان میں ہر نبی کو تفاوت ودرجات کی ترتیب سے ایک ایک آسمان کے ساتھ مخصوص کرنے میں ان خاص حالات کی طرف اشارہ مقصود تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں وقتا فوقتا پیش آئے چنانچہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام ہی سب سے پہلے نبی ہیں اور ہر انسان کے پہلے باپ ہیں ، اس لئے سب سے پہلے ان ہی سے ملاقات کرائی گئی اور اس ملاقات میں ہجرت کی طرف اشارہ تھا کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے دشمن ( ابلیس ) کی وجہ سے آسمان اور جنت سے زمین کی طرف ہجرت فرمائی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے دشمنوں کی وجہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے ، اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وطن مالوف کی مفارقت طبعا شاق ہوگی ۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ تمام انبیاء میں جس نبی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ زمانی قرب حاصل ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں ، نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں دجال کے قتل کے لئے آسمان سے اتریں گے اور امت محمدیہ میں ایک مجدد ہونے کی حیثیت سے شریعت محمدیہ کو جاری فرمائیں گے اور قیامت کے دن تمام لوگوں کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہی حاضر ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی درخواست کریں گے ، ان وجوہ سے حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کرائی گئی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ حضرت یحیی علیہ السلام کی معیت محض ان کی نسبی قرابت کی وجہ سے تھی ۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ اس بنا پر سب سے زیادہ مخصوص قرب حاصل ہے ، کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جنت میں داخل ہوگی تو حضرت یوسف علیہ السلام کی شکل وصورت کے حسن وجمال کی حامل ہوگی ، نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے خاندانی بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں سے سخت تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں گی اور بالاآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر غالب آکر ان سے درگزر فرمائیں گے ۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : ورفعنہ مکانا علیا ۔ اور چونکہ ساتوں آسمانوں میں درمیانی اور معتدل چوتھا آسمان ہی ہے اس لئے ان کو چوتھے آسمان آسمان پر رگھا گیا ، نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلاطین عالم کو دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائیں گے ، کیونکہ خط وکتابت کے اول موجد حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہیں ۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ( حضرت ہارون ) حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی ہونے کی حیثیت سے ان سے بہت قریب بھی تھے اور دعوت حق کے راستہ میں ان کے معتمد مدد گار بھی ، اس اعتبار سے ان کو حضرت موسی علیہ السلام کے آسمان سے قریب پانچویں آسمان پر رکھا گیا ، اور ان کے اوپر چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رکھا گیا ، کیونکہ وہ " کلیم اللہ " کی فضیلت رکھنے کے سبب دوسرے نبیوں سے اوپر چھٹے آسمان ہی سے موزونیت رکھتے تھے نیز اس ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام ملک شام میں جبارین سے جہاد وقتال کے لئے گئے اور اللہ نے ان کو فتح دی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دشمنان دین سے جہاد وقتال کے لئے ملک شام میں داخل ہوں گے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شام میں عزوہ تبوک کے لئے تشریف لے گئے اور دومۃ الجندل کے رئیس نے جزیہ دے کر صلح کی درخواست پیش کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صلح کی درخواست منظور فرمالی اور جس طرح ملک شام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کے ہاتھ پر فتح ہوا اسی طرح حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمر کے ہاتھ پر پورا ملک شام فتح ہوا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں ۔ اس اعتبار سے ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام نبیوں میں وہ سب سے افضل واشرف ہیں ، لہٰذا ان کو تمام انبیاء کے اوپر ساتویں آسمان پر رکھا گیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بانی کعبہ بھی ہیں اس لئے اس آخری ملاقات میں اس طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے بیشتر حج بیت اللہ فرمائیں گے اور آخر کار مکہ مکرمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں فتح ہوگا ۔
علماء نے لکھا ہے کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ اس شب میں آسمان پر تمام انبیاء کو جمع کرنے کے بجائے ان چند مخصوص انبیاء کو جمع کرنا کافی سمجھا گیا ہو، وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ باقی انبیاء بھی جمع کئے گئے ہوں اور اس موقع پر وہ سب اپنی اپنی حیثیت اور درجہ کے مطابق یہاں یہ احتمال ہے کہ اس شب میں آسمان پر ابنیاء کو جمع کرنے کے بجائے ان چند مخصوص انبیاء کو جمع کرنا کافی سمجھا گیا ہو، وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ باقی تمام انبیاء بھی جمع کئے گئے ہوں اور اس موقع پر وہ سب اپنی اپنی حیثیت اور درجہ کے مطابق مقامات پر آسمانوں میں موجود ہوں لیکن ذکر میں صرف ان مخصوص ومشہور ابنیاء کے اسماء پر اکتفاء کیا گیا ہو اور باقی انبیاء کے ذکر کی ضرورت ہی نہ سمجھی گئی ہو ۔
" اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا ۔" سدرۃ المنتہی " ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑ چھٹے آسمان میں ہے ۔ سدرۃ کے معنی بیر کے درخت کے ہیں ، اور منتہی کے معنی ہیں وہ جگہ جہاں ہر چیز پہنچ کر رک جاتی ہے ۔ چنانچہ زمین سے جو بھی چیز اوپر جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہی پر جا کر منتہی ہو جاتی اور پھر اوپر اٹھائی جاتی ہے ، اسی طرح ملاء اعلی سے جو چیز اتر تی ہے وہ سدرۃ المنتہی پر آکر ٹھہر جاتی ہے پھر نیچے لائی جاتی ہے ، گویا یہ وہ مقام ہے جس کے آگے فرشتے بھی نہیں جاسکتے ۔ یہ سعادت صرف ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام سے بھی آگے تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی اس مقام سے آگے نہیں گیا۔
واذا ورقھا اذان لفیلۃ ( اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے ) " اس جملہ میں لفظ فیلہ اسل میں فیل ( ہاتھی ) کی جمع ہے اور دیک کے وزن پر ہے جو دیک ( مرغ ) کی جمع ہے ۔ سدرۃی المنتہی کے پھلوں کو بڑے بڑے مٹکوں کے برابر اور اس کے پتوں کو ہاتھی کے کانوں کے برابر کہنا عوام کو سمجھانے اور قیاس عقل میں لانے کے لئے ہے حقیقت یہ ہے کہ لفظی طور پر نہ تو خود اس درخت کی لمبائی موٹائی حد حصر میں آسکتی ہے اور نہ اس کے پھل اور پتوں کے بڑے پن کا کائی اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
" جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ سدرۃ المنتہی ہے " حضرت جبرائیل علیہ السلام کا یہ کہنا یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام سے متہعارف کرانا اور اس بات کی مبارکباد دینا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جو تمام خلائق کے عقل وعلم کا منتہی ہے اور جس کے آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کئی کی رسائی ممکن نہیں ہے یا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس کہنے کا مقصد یہ عذر بیان کرنا تھا کہ اب وہ مقام آگیا ہے جس کے آگے مجھے بھی جانے کی اجازت اور تاب نہیں ہے ، اس لئے میں یہاں سے آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ومصاحبت میں نہیں رہ سکوں گا ۔
" یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں " کے بارے میں طیبی نے لکھا ہے کہ جنت کی ان دونوں نہروں میں سے ایک نہر تو سلسبیل تھی اور دوسری نہر کوثر تھی ۔ نیز ان دونوں نہروں کو باطن ( پوشیدہ) اس اعتبار سے کہا گیا ہے ، کہ وہ جنت میں بہتی ہیں ، وہاں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے : جنت کی ان دونوں نہروں کو " باطن" اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عقل ان کے اوصاف وخصوصیات کی حقیقت وکہنہ کا ادراک نہیں کر سکتی ۔
" اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل وفرات ہیں " کے بارے میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں نہروں سے مراد مصر کا دریائے نیل اور عراق کا دریائے فرات ہے ، جن کے متعلق حدیث میں ہے کہ یہ دونوں اصل میں سدرۃ المنتہی کی جڑ سے نکل کر زمین تک آئے ہیں اور روئے زمین کے ان علاقوں میں بہتے ہیں ۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا کہ ان دونوں نہروں کو نیل اور فرات سے تعبیر کرنا یا تو تشبیہ اور استعارہ کے طور پر ہے کہ دریائے نیل اور دریائے فرات کا پانی شیرینی ولطافت اور فوائد ومنافع کے اعتبار سے جنت کے پانی کے مشابہ ہے اور یا یہ محض اسمی اشتراک ہے کہ جیسے زمین کے دو دریاؤں کے نام نیل وفرات ہیں ایسے ہی جنت کی دو نہروں کے نام بھی نیل اور فرات ہیں ۔
" پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا ۔ " بیت المعمور بھی " اللہ " کا گھر " ہے جو قبلہ ملائک ہے اور ساتویں آسمان پر واقع ہے ، اس کا محل وقوع ٹھیک خانہ کعبہ کے محاذات میں ہے ، بالفرض اگر وہ گرے تو عین کعبہ پر آکر گرے ۔ اس کا ذکر آگے حدیث میں آرہا ہے ۔