قیصر روم کے دربار میں ابوسفیان کی گواہی
راوی:
عن ابن عباس قال : حدثني أبو سفيان بن حرب من فيه إلى في قال : انطلقت في المدة التي كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فبينا أنا بالشام إذ جيء بكتاب النبي صلى الله عليه و سلم إلى هرقل . قال : وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل فقال هرقل : هل هنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي ؟ قالوا : نعم فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسنا بين يديه فقال : أيكم أقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي ؟ قال أبو سفيان : فقلت : أنا فأجلسوني بين يديه وأجلسوا أصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه فقال : قل لهم : إني سائل هذا عن هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فإن كذبني فكذبوه . قال أبو سفيان : وأيم الله لولا مخافة أن يؤثر علي الكذب لكذبته ثم قال لترجمانه : سله كيف حسبه فيكم ؟ قال : قلت : هو فينا ذو حسب . قال : فهل كان من آبائه من ملك ؟ قلت : لا . قال : فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال ؟ قلت : لا . قال : ومن يتبعه ؟ أشراف الناس أم ضعفاؤهم ؟ قال : قلت : بل ضعفاؤهم . قال : أيزيدون أم ينقصون ؟ قلت : لا بل يزيدون . قال : هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخل فيه سخطة له ؟ قال : قلت : لا . قلت : فهل قاتلتموه ؟ قلت : نعم . قال : فكيف كان قتالكم إياه ؟ قال : قلت : يكون الحرب بيننا وبينه سجالا يصيب منا ونصيب منه . قال : فهل يغدر ؟ قلت : لا ونحن منه في هذه المدة لا ندري ما هو صانع فيها ؟ قال : والله ما أمكنني من كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه . قال : فهل قال هذا القول أحد قبله ؟ قلت : لا . ثم قال لترجمانه : قل له : إني سألتك عن حسبه فيكم فزعمت أنه فيكم ذو حسب وكذلك الرسل تبعث في أحساب قومها . وسألتك هل كان في آبائه ملك ؟ فزعمت أن لا فقلت : لو كان من آبائه ملك . قلت : رجل يطلب ملك آبائه . وسألتك عن أتباعه أضعافاؤهم أم أشرافهم ؟ فقلت : بل ضعفاؤهم وهم أتباع الرسل . وسألتك : هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال ؟ فزعمت أن لا فعرفت أنه لم يكن ليدع الكذب على الناس ثم يذهب فيكذب على الله . وسألتك : هل يرتد أحد منهم عن دينه بعد أن يدخل فيه سخطة له ؟ فزعمت أن لا وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشته القلوب . وسألتك هل يزيدون أم ينقصون ؟ فزعمت أنهم يزيدون وكذلك الإيمان حتى يتم وسألتك هل قاتلتموه ؟ فزعمت أنكم قاتلتموه فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا ينال منكم وتنالون منه وكذلك الرسل تبتلي ثم تكون لها العاقبة . وسألتك هل يغدر فزعمت أنه لا يغدر وكذلك الرسل لا تغدر وسألتك هل قال هذا القول أحد قبله ؟ فزعمت أن لا فقلت : لو كان قال هذا القول أحد قبله قلت : رجل أئتم بقول قيل قبله . قال : ثم قال : بما يأمركم ؟ قلنا : يأمرنا بالصلاة والزكاة والصلة والعفاف . قال : إن يك ما تقول حقا فإنه نبي وقد كنت أعلم أنه خارج ولم أكن أظنه منكم ولو أني أعلم أني أخلص إليه لأحببت لقاءه ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه وليبلغن ملكه ما تحت قدمي . ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقرأه . متفق عليه
وقد سبق تمام الحديث في " باب الكتاب إلى الكفار "
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوسفیان ابن حرب نے مجھ کو منہ در منہ یہ بیان کیا ہے کہ اس صلح (حدیبیہ ) کی مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی (اور نہ صرف یہ کہ میں مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ دشمنان اسلام کا سردار تھا ) میں نے سفر کیا اور اتفاق سے اس وقت جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک ہرقل (قیصر روم کے پاس پہنچا میں ملک شام میں مقیم تھا ! ابوسفیان نے کہا کہ نامہ مبارک دحیہ کلبی لے کر آئے تھے جس کو انہوں نے بصری کے حاکم کے پاس پہنچایا اور بصری کے حاکم نے اس نامہ مبارک کو ہرقل کی خدمت میں پیش کیا ، ہرقل نے پوچھا کہ کیا اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی یہاں ہے جو اپنے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے (تاکہ میں اس مدعی نبوت کے بارے میں معلومات حاصل کر کے یہ جان سکوں کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا ؟) اس کے عملہ نے بتایا کہ ہاں (اس شخص کی قوم سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہے جو ہمارے یہاں تجارت کی غرض سے آیا ہوا ہے ) چنانچہ مجھے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ (جو بیس آدمیوں پر مشتمل تھی ) ہرقل کے دربار میں طلب کیا گیا ۔ جب ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو ہمیں اس کے سامنے بٹھایا گیا (تاکہ آسانی کے ساتھ ہم اس کی اور وہ ہماری بات سن سکے ) سب سے پہلے ہرقل نے پوچھا کہ تم میں سے کون آدمی اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے جون بوت کا مدعی ہے ؟ ابوسفیان کا بیان ہے کہ (یہ سن کر ) میں نے کہا کہ اس شخص کا سب سے قریبی رشتہ دار میں ہوں ۔ اس کے بعد تنہا مجھ کو ہرقل کے سامنے تخت شاہی کے قریب ) بٹھا دیا گیا اور میرے ساتھ والوں کو میرے پیچھے بٹھلایا گیا ۔ پھر ہرقل نے اپنے مترجم کو طلب کیا (جو عربی اور رومی دونوں زبانیں جانتا تھا ) اور اس سے کہا کہ تم اس شخص (ابو سفیان) کے ساتھیوں سے کہہ دو میں اس (ابوسفیان ) سے اس شخص کے حالات معلوم کروں گا جو نبوت کا دعوے کرتا ہے ، اگر یہ (ابوسفیان ) مجھ کو کوئی غلط بتائے تو تم لوگ (بلا جھجک ) اس کی تردید کرنا اور مجھے صحیح بات بتا دینا ۔ ابوسفیان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھے دروغ گو مشہور کر دیا جائے گا تو یقینا میں ہرقل کے سامنے جھوٹ بولتا (اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بات نہ بتاتا ) اس کے بعد ہرقل نے اپنے مترجم سے کہا کہ ابوسفیان سے پوچھو! تمہارے درمیان اس شخص (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب کیسا ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے کہا : وہ شخص ہم میں حسب والا ہے یعنی اعلی حسب رکھتا ہے ۔ پھر ہرقل نے پوچھا کی اس شخص کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا کبھی نہیں ! پھر ہرقل نے پوچھا جو کچھ وہ اب کہتا ہے اس سے پہلے بھی اس نے کبھی ایسی بات کہی جس کو تم نے جھوٹ سمجھا ہو (یعنی نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے کے زمانہ میں کیا وہ جھوٹ بولا کرتا تھا یا کسی شخص نے کبھی اس پر جھوٹ کا الزام لگایا تھا؟ ) میں نے کہا نہیں ! پھر ہرقل نے پوچھا اس کا اتباع کرنے والے اور اس پر ایمان لانے والے لوگ کون ہیں ؟ شرفاء یا کمزور ضعیف لوگ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ اس کے ابتاع کرنے والے کمزور ضعیف لوگ ہیں ہرقل نے پوچھا اس شخص کے تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ کم نہیں ہو رہی بلکہ زیادہ ہو رہی ہے پھر ہرقل نے پوچھا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناخوش ہو کر یا اس دین کی راہ میں پیش آنے والی سختی سے بیزار ہو کر دین کو چھوڑ بھی بیٹھتا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں چھوڑتا پھر ہرقل نے پوچھا کیا تم لوگ اس سے لڑتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں پھر ہرقل نے پوچھا کہ اس سے تمہاری لڑائی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا کہ میں نے جواب دیا ہمارے اس کے درمیان ہونے والی جنگ دو ڈولوں کی مانند ہوتی ہے کبھی ہم اس کو بھگتتے ہیں اور کبھی وہ ہم کو بھگتتا ہے یعنی ہمارے اور اس کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کا حال ان دو ڈولوں کی طرح ہے جن کو بیک وقت پانی سے بھرنے کی کوشش کی جائے کہ کبھی ایک بھر جاتا ہے تو دوسرا خالی رہ جاتا ہے اور کبھی دوسرا بھر جاتا ہے تو پہلا خالی ہو جاتا ہے ایسے ہی کبھی ہم اس مدعئی نبوت اور اس کے ساتھیوں پر غالب آ جاتے ہیں اور کبھی وہ ہم پر غالب آ جاتا ہے اسی طرح کبھی ہم اس کی وجہ سے مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کبھی وہ ہماری وجہ سے مصائب و تکلیف اٹھاتا ہے پھر ہرقل نے پوچھا کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے یعنی کسی سے صلح کرنے کے بعد اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے کسی سے صلح کی ہو اور اس کو از خود ختم کر دیا ہو، البتہ آج کل ہمارے اور اس کے درمیان جو صلح (یعنی صلح حدیبیہ ) ہے اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی روش کیا رہے گی (آیا وہ اس صلح کو اس کی مدت ختم ہونے سے پہلے توڑ دے گا یا باقی رکھے گا ) ۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم (ہرقل سے پورے سوال و جواب کے درمیان ) صرف ایک بات ایسی تھی جو میں نے اپنے جذبات کے تحت کہی تھی اس کے علاوہ اور کوئی بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی (یعنی ہرقل کے کسی سوال کے جواب میں کوئی ایسی بات کہنے پر قادر نہیں ہو سکا جو میرے نزدیک خلاف حقیقت تھی یا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تنقیص ہوتی ہاں اس ایک بات کا اظہار اپنی طرف سے میں نے بیشک کیا کہ آج کل ہمارے اور ان کے درمیان جو صلح چل رہی ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں وہ عہد شکنی نہ کریں میری اس بات سے ذات رسالت کی طرف عہد شکنی کی نسبت کا احتمال ظاہر ہوتا تھا ) بہر حال پھر ہرقل کا سوال یہ تھا کہ کیا اس طرح کی بات اس سے پہلے بھی کبھی کسی نے کہی ہے (یعنی مشہور پیغمبروں جیسے ابراہیم علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، اسباط علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، اور عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کے علاوہ تمہاری قوم سے کسی اور شخص نے بھی اس سے پہلے نبوت کا دعوی کیا ہے ؟) میں نے جواب دیا! نہیں ۔ ( ان تمام سوال و جواب کے بعد ) ہرقل نے ( ضروری سمجھا کہ اپنے ان سوالوں کو جو نبوت و رسالت کے باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں عقل و نقل اور تجربہ و معلومات کی روشنی میں واضح کرے ۔چنانچہ اس نے ) اپنے مترجم سے کہا کہ تم اس (سفیان ) سے کہو کہ میں نے تمہارے درمیان اس شخص کے حسب کے بارہ میں تم سے پوچھا اور تم نے بتایا کہ وہ حسب والا ہے تو حقیقت یہی ہے کہ رسول اور نبی اپنی قوم کے اشراف ہی میں سے ہوتے رہے ہیں ۔ پھر میں نے پوچھا تھا کہ اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا اور تم نے بتایا کہ کوئی نہیں، تو میں نے (اپنے دل میں ) کہا کہ اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ وہ ایک شخص ہے جو اپنے باپ دادا کی حکومت کا طالب ہے (اور حکمرانی و سرداری کی اپنی اس طلب و خواہش کو نبوت کے دعوے کے ذریعہ ظاہر کر رہا ہے ) پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس کی اتباع کرنے والے لوگ اپنی قوم کے شرفاء (یعنی دولت و ثروت اور دنیاوی جاہ حشم رکھنے والے ہیں یا کمزور و ضعیف (یعنی مفلس و مسکین اور گوشہ نشین لوگ ) ہیں اور تم نے بتایا کہ کمزور و ضعیف لوگ اس کے تابعدار ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار (عام طور پر ) کمزور و ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس وقت وہ جو کچھ کہتا ہے (یعنی دعوی نبوت ) اس سے پہلے کیا تمہیں کبھی اس کے جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے ۔ اور تم نے بتایا کہ نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص لوگوں سے تو جھوٹ بولنے سے اجتناب کرے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت جھوٹ بولے میں نے پوچھا تھا کہ اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس سے ناخوش ہو کر دین سے دین کو چھوڑ بھی بیٹھتا ہے ؟ اور تم نے بتایا تھا کہ نہیں، تو درحقیقت ایمان کا یہی حال ہے کہ وہ جب دلوں میں جگہ پکڑ لے اور روح اس کی لذت و حلاوت سے آشنا ہو جائے تو پھر ہرگز جدا نہیں ہوتا ( اور اگر شاد و نادر کوئی شخص دین چھوڑ بھی بیٹھے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایمان سرے سے داخل و راسخ ہیں نہیں ہوا تھا، میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس شخص کے تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ؟ اور تم نے بتایا تھا کہ بڑھ رہی ہے تو درحقیقت ایمان کا یہی حال ہے (کہ روز بروز اس کا دائرہ اثر وسیع تر ہوتا جاتا ہے اور اہل ایمان کی تعداد بڑھتی رہتی ہے ) آخر کار وہ پایہ تکمیل و اتمام پہنچ جاتا ہے میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگ اس سے لڑتے ہو؟ اور تم نے جواب دیا تھا کہ ہاں لڑتے ہیں اور لڑائی کا انجام دو ڈولوں کی طرح ہوتا ہے کہ کبھی وہ تم سے مصیبت اٹھاتا ہے اور کبھی تم اس سے مصیبت اٹھاتے ہو، تو حقیقت یہ کہ رسولوں کا امتحان اسی طرح لیا جاتا ہے (کہ کبھی ان کے دشمنان دین پر غلبہ عطا کیا جاتا ہے اور کبھی دشمنوں کو ان پر غالب کر دیا جاتا ہے ) لیکن انجام کار رسولوں اور ان کے تابعداروں ہی کامل فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے اور ان کا دین چھا جاتا ہے میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا وہ شخص عہد شکنی کرتا ہے اور تم نے جواب دیا تھا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تم سے سوال کیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے ایسی بات کہی ہے یعنی نبوت کا دعوی کیا ہے ؟ اور تم نے جواب دیا تھا کہ نہیں، تو میں نے (اپنے دل میں ) کہا کہ اگر اس سے پہلے کسی نے اس طرح نبوت کا دعوی کیا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ پہلے شخص کی پیروی میں اس طرح کا دعوی کر رہا ہے ۔ ابوسفیان کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ (اچھا یہ بتاؤ ) وہ شخص تم کو کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ میں نے کہا وہ ہم سے کہتا ہے کہ نماز پڑھو، زکوۃ دو ، ناطے داروں سے محبت اور اچھا سلوک کرو اور حرام چیزوں سے بچو ۔ہرقل نے (یہ سن کر کہا ) اگر تمہارا بیان درست ہے تو یقینا وہ شخص پیغمبر ہے ۔ اور مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ (آخر زمانہ میں ) ایک پیغمبر پیدا ہونے والا ہے لیکن میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تمہاری قوم میں پیدا ہوگا ، اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان سے ملاقات کرنا میرے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ بات ہوتی ۔ اور اگر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ان کے دونوں پاؤں (اپنے ہاتھ سے ) دھوتا اور (میں تم کو بتاتا ہوں ) اس کی حکومت و اقتدار کا دائرہ اس زمین (ملک روم و شام ) تک پہنچ جائے گا جو میرے قدموں کے نیچے ہے، پھر ہرقل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک مانگا اور اس کو پڑھا ۔ (بخاری ومسلم ) اور یہ حدیث پیچھے باب الکتاب الی الکفار میں پوری نقل ہو چکی ہے "
تشریح
ابوسفیان نے مجھ کو منہ در منہ یہ بیان کیا ہے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے گویا یہ وضاحت کی ہے کہ ابوسفیان نے اپنا واقعہ مجھ کو براہ راست خود بیان کیا ہے ، یہ نہیں کہ کسی واسطہ و ذریعہ سے مجھ کو نقل ہوا ہے ۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ مجھ سے بیان کیا تو اس وقت میرے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا، چنانچہ " حدثنی " کا لفظ بھی اسی مطلب پر دلالت کرتا ہے ۔
" جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی ۔' میں" مدت " سے مراد صلح حدیبیہ کا زمانہ ہے ۔ یہ صلح ٦ھ میں ہوئی تھی اور صلح نامہ کی رو سے اس کی مدت دس سال کی قرار پائی تھی لیکن خود کفار مکہ نے اس صلح کو درمیان ہی میں اس طرح ختم کر دیا تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلہ خزاعہ کے بعض لوگوں کو ناحق قتل کر دیا تھا ، جس کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ سے جنگ کرنا پڑی اور اس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا ۔ یہ ٨ھ کا واقعہ ہے ۔
جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا " ہرقل کا لفظ ہ کے زیر اور ر کے زبر اور ق کے جزم کے ساتھ (یعنی ہرقل ) بھی آتا ہے اور ہ کے زبر رکے جزم اور ق کے زبر کے ساتھ (یعنی ہرقل ) بھی منقول ہے ، یہ اس وقت کی رومی سلطنت کے بادشاہ کا نام تھا ، دراصل رومی سلطنت جو اپنے وقت کی سب سے بڑی عالمی طاقت تھی اور جس کے زیر نگین علاقوں میں تمام براعظم یورپ، مصر اور ایشیائے کوچک شامل تھا جب چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو مغربی حصہ کا دار السلطنت اٹلی کا شہر روما ہی رہا اور مشرقی حصہ کا دار السلطنت قسطنطینہ قرار پایا جس طرح قدیم اور متحد رومی سلطنت کے حکمراں کو قیصر کہا جاتا تھا اسی طرح ان دونوں منقسم سلطنتوں کے حکمرانوں نے بھی اپنے اپنے لئے قیصر ہی کے لقب کو اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ قسطنطیہ کے بادشاہ کو بھی قیصر روم کہا جاتا تھا جس کے تحت مصر حبش فلسطین شام ، اور ایشیائے کوچک و بلقان ، کے ممالک تھے اس مشرقی رومی سلطنت کی شان و شوکت اور قوت و سطوت کے آگے مغربی روم کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت قسطنطنیہ کی سلطنت میں زبردست بغاوت ہوئی اور اس وقت کے قیصر فوقاکو امرائے سلطنت اور رعایائے ملک نے تخت سے اتار کر قتل کر دیا اور افریقی مقبوضات کے گورنر یعنی فرمانروائے مصر کو قسطنطنیہ کا تخت سنبھالنے کی دعوت دی ، گورنر افریقہ پیرانہ سالی کی وجہ سے نہ جا سکا لیکن اس کا جوان العمر بیٹا " ہرقل " قسطنطنیہ پہنچ کر اس عظیم سلطنت کا فرمانروا بن گیا ، اور ارکان سلطنت نے بھی ہرقل کی شہنشاہی کو بخوشی تسلیم کر لیا ، پوری سلطنت کی طرح خود بھی عیسائی تھا ، دیناروں پر ٹھپہ لگا کر اس کو باقاعدہ شکل دینے والا پہلا بادشاہ یہی ہرقل ہے ، عیسائی دنیا میں یہ امتیاز بھی اسی کو حاصل ہے کہ گرجا گھر سب سے پہلے اسی نے تعمیر کرائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے بادشاہوں اور سرداروں کے ساتھ جس " قیصر روم" کو اسلام کی دعوت کا نامہ مبارک روانہ فرمایا تھا وہ یہی ہرقل فرمانروائے سلطنت قسطنطنیہ تھا ۔ بصری " شام میں ایک شہر کا نام تھا اور سلطنت قسطنطنیہ (قیصر روم ) کے زیر نگیں تھا ، اس شہر کا حاکم ، قیصر روم کے گورنر کی حیثیت سے بصری ہی کے پاس روانہ کیا تھا اور اس نے اس نامہ مبارک کو قیصر روم تک پہنچا یا تھا ۔
تم میں سے کون آدمی اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے ۔" کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ کسی شخص کے احوال و کوائف چونکہ اس آدمی کو زیادہ بہتر طور معلوم ہوتے ہیں اور وہی ان کو زیادہ صحیح طور پر بیان کر سکتا ہے ، جو نسب اور رشتہ داری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریبی رشتہ داری رکھتے ہیں تو ان ہی کو سوال وجواب کے لئے منتخب کیا ۔
اور میرے ساتھ والوں کو میرے پیچھے بٹھلایا گیا ۔" ہرقل نے صحیح جوابات حاصل کرنے کے لئے یہ مزید احتیاط برتی کہ ابوسفیان کے تمام ساتھیوں کو ان کے پیچھے بٹھلایا تاکہ اگر ابوسفیان جواب دینے میں کچھ غلط بیانی کریں تو ان کے ساتھی آنکھ کے سامنے کا لحاظ کر کے ان کی ترید کرنے میں جھجک کا شکار نہ ہوں ۔ یا ان لوگوں کو پیچھے بٹھانے میں ہرقل کا یہ مقصد بھی ہو سکتا تھا کہ اگر اور تمام لوگ ابوسفیان کے برابر میں یا اس کے سامنے بیٹھے ہوں گے تو شاید خود وہ لوگ آنکھ وسر یا ہاتھ کے اشارے سے ابوسفیان کو کوئی بات بیان کرنے سے منع کر دیں ۔
اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھے دروغ کو مشہور کر دیا جائے گا الخ ۔ اس جملہ سے ابوسفیان کی مراد یہ تھی کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہاں موجود میرے ساتھی مکہ واپس ہو کر میری قوم کے سامنے یہ کہیں گے کہ ابوسفیان نے ہرقل کے دوبارہ میں غلط بیانی کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کی اور ہر چند کو میری قوم کے لوگ وقتی طور پر خوش ہو جائیں گے مگر اس طرح میرا دماغ گو ہونا بھی مشہور ہو جائے گا جس سے میری قوم کی نظر میں میرے کردار کی عظمت باقی نہیں رہے گی ۔ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بغض و عناد اور سخت ترین مخالفانہ جذبات میں رکھتا تھا اس کے تحت ہرقل کے سامنے ضرور غلط بیانی کرتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بغض و عناد اور سخت ترین مخالفانہ جذبات میں رکھتا تھا اس کے تحت ہرقل کے سامنے ضرور غلط بیانی کرتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ صحیح باتیں ہرگز نہ بتلاتا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کا برحق ہونا ثابت ہوتا تھا ۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس جملہ کا زیادہ صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں نے اس موقع پر اگر کوئی غلط بیانی کی تو یہاں موجود میرے ساتھی میری تردید کریں گے اور ہرقل کی نظر میں میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا تو میں ہرقل کے سوالات کے جوابات میں ضرور غلط بیانی سے کام لیتا ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح باتیں نہ بتاتا ۔
وہ شخص ہم میں حسب والا ہے ۔ " حسب کے لغوی معنی شریف الاصل ہونا ، اور صفت کے ہیں ، یعنی وہ ذاتی اور آبائی و خاندانی صفات و خصوصیات جو کسی شخص کو شرف و فضیلت دے کر معاشرہ میں مفتخر بناتی ہیں ، اس اعتبار سے " حسب " کے تحت " نسب" کا مفہوم بھی آ جاتا ہے لہٰذا ابوسفیان نے اس جواب کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ وہ شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نہایت شریف خاندان کا ہے اور اس کا نسبی تعلق بنی ہاشم سے ہے جو قریش میں سب سے افضل ۔ نیز بخاری میں " حسب " کے بجائے " نسب " کا لفظ ہے ، اس کی عبارت یوں ہے ۔ کیف نسبہ فیکم الخ ( تم لوگوں میں سے اس کا نسب کیسا ہے ) ۔
" اس کی اتباع کرنے والے لوگ کون ہیں ، شرفاء ہیں یا کمزور ضعیف لوگ ؟ " سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا داروں کی نظر میں عزت و جاہت کے حامل ہوں اور وہ خود اپنی حیثیت عرفی پر مغرور و نازاں ہوں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر شرفاء کے لغوی و عرفی معنی مراد لئے جائیں تو بنی ہاشم سے تعلق رکھنے والے حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ اور اکابر قریش کی صف سے تعلق رکھنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے جلیل القدر قریشی صحابہ سے بڑھ کر شرفاء کون ہو سکتے تھے جو ہرقل اور ابوسفیان کے اس سوال وجواب سے پہلے مشرف ہو چکے تھے ۔
" اس کی اتباع کرنے والے کمزور ضعیف لوگ ہیں ۔ " ابواسحق کی روایت میں یہاں ابوسفیان کا جواب ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے : اس کی اتباع جن لوگوں نے کی ہے وہ کمزور و ضعیف ، مسکین اور نوعمر لوگ ہیں ، جہاں تک اعلی نسب و شرف رکھنے والوں کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کی اتباع نہیں کی ہے ۔ اگر ابوسفیان نے ان الفاظ میں جواب دیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات اکثر و اغلب پر محمول کر کے کہی تھی ۔
" تابعداروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ؟ " ہرقل کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ آیا یہ صورت ہے کہ اس شخص کی بات ماننے اور اس پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں دن بدن نئے نئے لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے یا اس کے تابعداروں کی تعداد اس طرح گھٹ رہی ہے کہ ایک دفعہ جن لوگوں کو ایمان لانا تھا وہ تو ایمان لے آئے ، اب ان میں سے اگر کوئی آدمی اس کا دین چھوڑ کر اپنے پچھلے دین یعنی کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے یا کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی کمی و نقصان کو پورا کرنے والے نئے لوگ اس کے دین میں داخل نہیں ہوتے ؟ اس کا جواب ابوسفیان نے دیا کہ کہ اس کے تابعداروں کی تعداد کسی بھی صورت میں گھٹ نہیں رہی ہے بلکہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ۔
" پیغمبروں کے تابعدار کمزور و ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں۔ " ہرقل نے یہ بات بالکل درست کہی کہ جب بھی حق کی آواز بلند ہوئی ہے اس کو لبیک کہنے کے لئے سب سے پہلے کمزور ضعیف ، نادار ومفلس اور مسکین لوگ ہی نکل کر آتے ہیں، جہاں تک دولت و ثروت اور دنیاوی عزت واثر رکھنے والے لوگوں کا تعلق ہوتا ہے ، وہ اپنے کاروبار ، ناز و نعم اور جاہ و تکبر میں گرفتار رہنے کی وجہ سے اس سعادت سے محروم رہتے ہیں ہاں جب مجبور ہو جاتے ہیں اور حق کی پناہ حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی راہ نجات انہیں نظر نہیں آتی تو پھر وہ بھی اہل ایمان اور اہل دین کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
" لوگوں سے تو جھوٹ بولنے سے اجتناب کرے اور اللہ کی نسبت جھوٹ بولے ۔ " یعنی یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اپنے خالق اور پروردگار کے حق میں جھوٹ بولنا اور اس کے تعلق سے کذب بیانی کرنا نہایت ہی برا ہے لہٰذا جس شخص کے بارے میں خود تمہارا اقرار ہے کہ اس نے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، کبھی کسی نے اس کو جھوٹا نہیں کہا ، تو وہ شخص اللہ کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے کہ اللہ نے اس کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ، خود تمہارے اقرار نے ثابت کر دیا کہ وہ شخص اپنی بات میں سچا ہے اور یقینا اللہ کا رسول ہے ۔
" اور آخر کار وہ پایہ تکمیل و اتمام کو پہنچ جاتا ہے ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دین اسی طرح پھلتا پھولتا ہے کہ ایک طرف تو اس کے تابعداروں اور حامیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور دوسری طرف خود اس دین کے اصولی اور بنیادی احکام و قوانین بتدریج نازل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نقطہ عروج آ جاتا ہے جہاں پہنچ کر دین کو آخری اور کامل شکل مل جاتی ہے اور اہل دین کو مؤثر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے ۔چنانچہ دین اسلام کا معاملہ ایسا ہی ہوا کہ ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل جدوجہد اور سعی و کوشش سے حلقہ بگوشان اسلام کی تعداد دن بہ دن بڑھتی رہی دوسری طرف اسلام کے احکام و قوانین جیسے نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ کی فرضیت نازل ہوتی رہی، اور پھر وہ دن آ گیا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں اپنے دین کے نام لیواؤں کو مؤثر غلبہ بھی عطا فرما دیا اور دین کو کامل و مکمل کر کے یہ آیت نازل فرمائی ۔
ا یت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ) 5۔ المائدہ : 3)
" آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمیتں تمام کیں ۔ "
" میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ تمہاری قوم میں پیدا ہوگا ۔ " ہرقل کا یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اکثر و بیشتر انبیاء چونکہ ہماری قوم یعنی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل سے نہیں ہوں گے جو اہل عرب ( حجاز ) کے مورث اعلی ہیں ۔ نیز ہرقل کا ابوسفیان سے یہ کہنا کہ تم نے جو باتیں بیان کی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو وہ شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) یقینا پیغمبر ہے ، اس بات کی علامت ہے کہ ہرقل سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتا تھا اور چونکہ ان کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے متعلق مذکورہ علامتیں لکھی ہوئی تھی ، اس لئے ہرقل نے اپنے علم کے مطابق جب یہ یقین حاصل کر لیا کہ اس مدعی نبوت میں یہ تمام علامتیں پائی جاتی ہیں تو اس نے ابوسفیان پر واضح کر دیا کہ اس شخص کے نبی اور رسول ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔ علاوہ ازیں ہرقل نجوم و کہانت میں بھی درک رکھتا تھا اور اس علم کے ذریعہ بھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی مذکورہ علامتوں کو جانتا تھا جیسا کہ بخاری ہی کی ایک اور روایت میں ابن ناطور حاکم بیت المقدس کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ ہرقل قیصر روم جب بیت المقدس میں مقیم تھا تو ایک روز صبح کو گبھرایا ہوا اٹھا، ایک شخص نے پریشانی کا سبب پوچھا تو ہرقل نے کہا کہ آج رات میں نے ستاروں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ مختون قوم کا بادشاہ تمام ممالک پر غالب آنے والا ہے ۔ اس کے بعد اس نے دریافت کیا کہ وہ کون قوم ہے جس میں ختنہ کا رواج ہے تو اس کو بتایا گیا کہ عربوں میں ختنہ کا رواج ہے لیکن یہ ہرقل کی سب سے بڑی بد نصیبی رہی کہ وہ اپنے علم ذہانت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حقیقت کو جاننے کے باوجود ایمان کی دولت سے محروم رہا اور اپنے علم و آگہی سے فائدہ حاصل نہ کر سکا اور اس نے نہ صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہہ کر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کے خلاف نبرد آزما بھی ہوا ۔ اس نے مجاہدین اسلام کے خلاف متعدد بار اس اس زمانہ کر رومی سلطنت کی انتہائی ترقی یافتہ فوجیں روانہ کیں ، اور مختلف علاقوں اور شہروں میں اسلامی شیروں کو اس کے جابر لشکروں کا مقابلہ کرنا پڑا ، مگر چونکہ اللہ کی مدد اپنے نام لیواؤں کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے ہر میدان جنگ میں اور ہر موقع پر ہرقل کی رومی فوج کو زبردست پسپائی و ہلاکت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، اور اس کے لشکر کے بہت ہی کم لوگوں کو میدان جنگ سے صحیح و سالم واپس ہونے کا موقع نصیب ہوتا تھا ، ہرقل اپنی عظیم سلطنت اور زبردست فوج کی طاقت کے بل پر اسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ایمانی طاقت کو مسدود اور محدود کر دینے کی کاروائیوں میں زندگی بھر مصروف رہا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس کو اہل اسلام کے مقابلہ پر مغلوب کیا یہاں تک وہ مسلمانوں کو شکست فاش دینے کی حسرت و تمنا لئے ہوئے مر گیا اور اس کی عظیم سلطنت کا ایک بڑا حصہ جیسے ملک شام وغیرہ کے اکثر علاقے مسلمانوں نے فتح کر لئے ۔ ہرقل کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوا لیکن اسلام کے مقابلہ پر زوال پذیر رومی سلطنت کو وہ بھی سہارا نہ دے سکا اور اس کے مرنے کے بعد تو اس سلطنت کا وجود ہی چراغ سحری ہو کر رہ گیا ، اور پھر وہ زمانہ آیا جب ان ہی رومیوں میں سے ایک قوم (ترک) کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و اسلام کی سعادت عطا فرمائی ، اس قوم نے اپنی بے پناہ شحاعت و بہادری اور ایمان کی زبردست طاقت سے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانہ میں دنیا بھر کے عیسائیوں کی مشترکہ طاقت کو پسپا کیا ، کفر و شرک کے مقابلہ پر اسلام کی حفاظت کی ، بلکہ خود کو مسلمان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف تھا ، یہ ترک ہی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی تعمیر و ترقی اور خدمت و محافظت کی سعادت عطا کی ۔ انہوں نے مسجد حرام ، مکہ مکرمہ اور حرم نبوی ، مدینہ منورہ کی خدمت و محافظت، اہل مکہ، اور اہل مدینہ کی دیکھ بھال اور مالی امداد و اعانت اور علماء و مشائخ کی تعظیم و تکریم جس اخلاص، جس عقیدت اور جس لگن سے کی ، اس کی کوئی مثال نہیں ہے ! اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرما دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں پڑا رہنے دے اس کو کوئی کام نہیں آ سکیں کیونکہ اس کا اصل مطمع و نظر وہ ریاست و سلطنت تھی جس کو وہ کسی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور مال و دولت کی وہ محبت تھی جس نے اس کے دل و دماغ پر حقیقت پسندی سے زیادہ جاہ پسندی کی چھاپ ڈال رکھی تھی ۔ لہٰذا وہ توفیق الہٰی اور ازلی سعادت سے محروم رہا اور ابدی بدبختی کا مستوجب بنا ، دوسری طرف اسی کے علاقہ اور اسی کی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جو اپنی ازلی اور ابدی سعادت کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے بلکہ دنیا کی زبردست طاقت عظیم فاتح اور مثالی حکمران بنے ۔
اس موقع پر ہرقل کی اس خوبی کا ذکر بھی ناگزیر ہے کہ جب اس کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا تو اس نے نہ صرف یہ کہ اس کو اشتیاق و التفات کے ساتھ پڑھا بلکہ اس کی بڑی تعظیم و تکریم کی ، اور اس نامہ مبارک کو محفوظ رکھنے کا زبردست اہتمام کیا اس کے برخلاف فارس ( ایران ) کے بادشاہ کسری نے نامہ مبارک کے ساتھ بے حرمتی کا معاملہ کیا اور اس بدبخت نے نامہ مبارک کو چاک کر کے پارہ پارہ کر دیا، تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اس کی سلطنت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کی اولاد ذلت و رسوائی کے ساتھ دربدر ماری ماری پھری اور اس کی آئندہ نسل میں سے کسی کو بھی تخت وتاج کی صورت دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔
صحیح بخاری میں یہ روایت منقول ہے کہ ہرقل قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکو رہ نامہ مبارک پڑھ کر اپنے ملک کے اعیان سلطنت اور عمائدین مملکت کو اپنے محل میں جمع کیا اور پھر بند کمرہ میں ان کی مجلس منعقد کی اور سب کو مخاطب کر کے کہا کہ " لوگو! اگر تم اپنی مراد کو پہنچنا چاہتے ہو اور فلاح یاب ہونے کے خواہش مند ہو تو اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرو اور ان پر ایمان لے آؤ ۔ یہ سنتے ہی ان تمام لوگوں نے سخت برہمی اور نفرت کا اظہار کیا اور اس قدر مشتعل ہوئے کہ ہرقل بھی ان کا رد عمل دیکھ کر گھبرا گیا ، اس نے کہا کہ تم لوگوں کو اس قدر برہم اور وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اپنے دین پر قائم رہو ، میں نے تو صرف یہ آزمانے کے لئے کہ تم لوگ اپنے دین اور اپنے عقیدہ میں کسی قدر مستحکم اور مضبوط ہو ، یہ بات کہی تھی ۔ تب وہ اعیان سلطنت اور عمائدین مملکت مطمئن وخوش ہوئے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہو گئے ۔
بعض حضرات نے ہرقل کے ایمان کی طرف اشارہ کیا ہے اور مختلف آثار وقرائن کے تحت اس کو مؤمن کہا ہے لیکن راجح قول اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ کفر و شرک پر عامل تھا اور کافر و مشرک ہی مرا، ایمان و اسلام کی دولت اس کو نصیب نہیں ہوئی ، چنانچہ مسند امام احمد میں ایک روایت منقول ہے کہ اس نے مقام تبوک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا تھا کہ میں مسلمان ہوں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرقل بالکل جھوٹ کہتا ہے ، وہ نصرانیت ( عیسائیت ) پر قائم ہے ۔ بہرحال ہرقل کے واقعہ کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ علم و دانائی ، ہدایت پانے کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک کہ حق تعالیٰ کی توفیق اور فطرت سلیم کی وہ رہنمائی حاصل نہ ہو جو قبول حق تک پہنچاتی ہے ۔ عشق کاریست کہ موقوف ہدایت باشد ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کی محبت اور جاہ و اقتدار کی حرص، حق کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔