مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 441

ایک خواب اور دعا

راوی:

وعن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يدخل على أم حرام بنت ملحان وكانت تحت عبادة بن الصامت فدخل عليها يوما فأطعمته ثم جلست تفلي رأسه فنام رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم استيقظ وهو يضحك قالت : فقلت : ما يضحكك يا رسول الله ؟ قال : " ناس من أمتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج هذا البحر ملوكا على الأسرة أو مثل الملوك على الأسرة " . فقلت : يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها ثم وضع رأسه فنام ثم استيقظ وهو يضحك فقلت : يا رسول الله ما يضحكك ؟ قال : " ناس من أمتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله " . كما قال في الأولى . فقلت : يا رسول الله ادع الله أن يجعلني منهم . قال : " أنت من الأولين " . فركبت أم حرام البحر في زمن معاوية فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت . متفق عليه

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے جو حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں ، ایک دن (حسب معمول ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام کے ہاں تشریف لائے تو ام حرام نے آپ کو کھانا کھلایا ، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں ، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے پھر (کچھ ہی دیر بعد ) ہنستے ہوئے بیدار ہو گئے ! ام حرام نے بیان کیا کہ میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں ہنستے ہوئے دیکھا تو ) پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز نے ہنسایا ؟ فرمایا (خواب میں ) میری امت میں سے ایک جماعت اس حال میں میرے سامنے لائی گئی اور مجھ کو دکھائی گئی کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہی تھی اور سمندر میں اس طرح محو تھی جیسے بادشاہ اپنے تحت پر ہوتے ہیں ۔ یا یہ فرمایا کہ بادشاہوں کی طرح جو تخت پر جلوہ گر ہوں ۔ میں نے (یہ سن کر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ سے دعا کیئجے کہ وہ ان مجاہدوں میں جو سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جہاد کو نکلیں ) مجھ کو بھی شامل کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام حرام کے حق میں دعا کر دی ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (تکیہ پر ) سر رکھا اور پھر سو گئے (کچھ دیر بعد ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب کیوں ہنسے ؟ فرمایا : (اب پھر (خواب میں ) میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے اس حال میں پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ فرمایا تھا (اس مرتبہ بھی وہی الفاظ ارشاد فرمائے کہ وہ لوگ سمندر میں اس طرح محو سفر تھے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر ہوتے ہیں ) میں نے (یہ سن کر اس مرتبہ ) پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ان مجاہدوں میں مجھ کو بھی شامل کر دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! پہلی جماعت میں ہو ۔چنانچہ حضرت ام حرام نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (جہاد کی غرض سے ) بحری سفر کیا اور جب سمندر سے اتر کر جانور پر سوار ہوئیں تو (اچانک ) جانور کی پشت سے زمین پر گر پڑیں اور (راہ اللہ میں شہادت کا مرتبہ پا کر اس دنیا سے کوچ کر گئیں ۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
ام حرام ملحان ابن خالد کی بیٹی ہیں، قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتی ہیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خالہ ہیں اور ان کی والدہ حضرت ام سلیم کی بہن ہیں، یہ دونوں یعنی ام حرام اور حضرت ام سلیم دودھ کے رشتہ سے یا کسی نسبی قرابت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں، امام نووی نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت ام حرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ دوپہر میں ان کے ہاں جا کر قیلولہ فرمایا کرتے تھے، لیکن کیفیت محرمیت میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کسی نے کسی تعلق سے محرم کہا ہے اور کسی نے کسی تعلق سے !حضرت ام حرام مشرف باسلام ہوئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیت کی، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اپنے خاوند حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو انصار میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلیں اور سر زمین روم میں پہنچ کر مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئیں ۔
" سر مبارک میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں ۔" پہلے یہ تحقیقی قول گزر چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کے کسی بھی حصہ میں جوئیں نہیں تھیں ۔ حضرت ام حرام کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کو گرد و غبار سے صاف کرنا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ کہیں کوئی جوں تو نہیں ہے ، اگر ہو تو نکال دیں ۔
یا یہ فرمایا کہ بادشاہوں کی طرح جو تخت پر جلوہ گر ہوں ۔" اس موقع پر دراصل روای نے آپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملوکا علی الاسرۃ کے الفاظ ارشاد فرمائے یا مثل الملوک علیہ الاسرۃ کے الفاظ دونوں جملوں میں بہت معمولی سا لفظی فرق ہے ، معنی و مفہوم کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں ۔ اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے سینہ کو گویا زمین کی پشت سے اور کشتی کو تخت سے مشابہت دی اور کشتی میں سوار ہونے کو تخت سلطنت پر بادشاہ کے بیٹھنے کے مشابہ قرار دیا ، اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ اگرچہ اپنی جان ہتھلی پر رکھ کر اتنی خطرناک مہم پر روانہ ہوں گے لیکن قصد کے تئیں اخلاص و یقین اور رضائے الہٰی کے حصول کا جذبہ صادق رکھنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نہ خوف ہوگا نہ گھبراہٹ وہ اس قدر ذہنی و دماغی اطمینان و سکون اور قلبی طمانیت و نشاط کے ساتھ کھلے سمندر میں سفر کریں گے اور کشتیوں میں بیٹھے ہوں گے جیسے کوئی بادشاہ اپنے محفوظ و مامون محل میں تحت سلطنت پر اطمینان سے بیٹھا ہو۔
تم پہلی جماعت ہو ۔" اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری مرتبہ خواب میں جماعت دکھائی دی ۔ وہ اس جماعت کے علاوہ دوسرے لوگوں پر مشتمل تھی جو پہلی مرتبہ دکھائی گئی تھی، اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ اس امت کی کوئی نہ کوئی جماعت برابر سمندری سفر کر کے کے راستہ میں جہاد کرتی رہے گی ، کبھی کوئی لشکر برسر پیکار ہوگا اور کبھی کوئی لشکر سمندورں کا سینہ چیرتا ہوا دشمنان حق پر حملہ آور ہوگا ۔ لہٰذا جب حضرت ام حرام نے دوسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے حق میں تو پہلی مرتبہ کی دعا قبول ہو چکی ہے اور تم اس جماعت میں شامل ہو گی جو سب سے پہلے بحری سفر کر کے اللہ کے راستہ میں جہاد کرے گی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا مرتبہ کہ جنہیں پہلے جہاد کی سعادت نصیب ہوئی ، بعد کے مجاہدین کے مرتبہ سے بلند ہے ۔ روایت کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر جہاد میں حضرت ام حرام کی روانگی اور سواری کے جانور کی پشت سے گر کر ان کی وفات پانے کا واقعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کے زمانہ کا ہے جب کہ اسماء الرجال اور سیر کی کتابوں میں ان کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں بیان کی گئی ہے، تو یہ سلسلہ میں اصل بات یہ ہے کہ یہاں " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے مراد ان کی گورنری کا زمانہ ہے، یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں جب معاویہ عامل و گورنر تھے تو اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا نہ کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بذات خود تخت امارت و حکومت پر فائز تھے ، اس کی وضاحت سے دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں