مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 434

شق صدر کا واقعہ :

راوی:

عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتاه جبريل وهو يلعب مع الغلمان فأخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج منه علقة . فقال : هذا حظ الشيطان منك ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم ثم لأمه وأعاده في مكانه وجاء الغلمان يسعون إلى أمه يعني ظئره . فقالوا : إن محمدا قد قتل فاستقبلوه وهو منتقع اللون قال أنس : فكنت أرى أثر المخيط في صدره . رواه مسلم

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے بچپن میں جب دایہ حلیمہ کے پاس تھے تو اس کا واقعہ ہے کہ (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر چت لٹا دیا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (سینہ کو ) دل کے قریب سے چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا کہ یہ تمہارے جسم کے اندر شیطان کا حصہ ہے (اگر یہ ٹکڑا تمہارے جسم میں یوں ہی رہنے دیا جاتا تو شیطان کو اس کے ذریعہ تم پر قابو پانے کا موقع ملتا رہتا ) اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو ایک سونے کی لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر دل کو اس کی جگہ میں رکھ کرسینہ مبارک کو اوپر سے برابر کردیا ۔ (وہ) بچے (جو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یہ پورا منظر دیکھ کر گھبرا گئے اور ) بھاگے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ (حلیمہ ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالا گیا ہے (دایہ حلیمہ کے گھر اور پڑوس کے ) لوگ (یہ سنتے ہی) اس جگہ پہنچے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح سالم دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ خوف ودہشت سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے چہرہ ) کا رنگ بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ روایت بیان کرکے ) کہتے ہیں کہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا ۔ (مسلم)

تشریح :
جامع الاصول میں عن قلبہ کے بعد واستخرجہ کا لفظ بھی منقول ہے اور پوری عبارت یوں ہے فشق عن قلبہ واستخرجہ فاستخرج منہ علقہ ۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا : پھر انہوں نے آپ کے (سینہ کو ) دل کے قریب سے چاک کیا اور دل کو نکالا اور پھر دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا ( جو برائیوں اور گنا ہوں کی جڑ ہوتا ہے ) سونے کے لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا ۔" سونے کی لگن کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کر امت کے اظہا رکے لئے تھا جہاں تک سونے کے استعمال کی ممانعت کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس دنیا کی زندگی سے امتحان وآزمائش سے ہے جس کا مقصد انسان کو اس دنیاوی زندگی میں ایسی بہت سی چیزوں سے باز رکھ کر اس کی بندگی کو آزمانا ہے جس میں کامیاب ہونے کے بعد آخرت میں وہی چیزیں اس کو اجر وانعام کے طور پر حاصل ہونگی ، اسی لئے آخرت میں نہ صرف یہ کہ سونے کا استعمال جائز ہوگا بلکہ جنت کے ظروف وبرتن سونے کے ہوں گے 'پس شق صدر کا یہ تمام واقعہ جو اس وقت یا شب معراج میں پیش آیا ، اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ عالم غیب اور دوسرے جہاں کے احوال سے تعلق رکھتا ہے ۔علاوہ ازیں یہ نقطہ بھی محفوظ خاطر رہنا چاہیے کہ سونے کی لگن کا استعمال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا استعمال فرشتے نے کیا تھا جو احکام ومسائل میں ہماری طرح مکلف نہیں تھا ۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ سونے کی لگن کے استعمال کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب احکام ومسائل کا نفاذ ہی نہیں ہوا تھا اور شرعی طور پر کسی چیز کی حلت وحرمت نازل اور معلوم نہیں ہوئی تھی ۔
حدیث کے اس ٹکڑے سے یہ ثابت ہوا کہ زمزم کا پانی سب پانیوں سے افضل وبرترہے یہاں تک کہ جنت کے پانی پر بھی فضیلت وبرتری رکھتا ہے کیونکہ اگر کوئی شبہ نہیں کہ وہ پانی جو بطور معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے ابل کر نکلا تھا ، یہاں تک کہ آب زمزم پر بھی فضیلت وبرتری رکھتا ہے ۔ کیونکہ وہ پانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کے اثر سے نکلا تھا جب کہ زمزم کا پانی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پیروں کے اثر سے برآمد ہوا ہے ۔
یہ حدیث اور اسی طرح کی دوسری حدیثیں اس قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جن کا جوں کا توں تسلیم کرنا واجب ہے اور بطریق مجازتاویل وتوجیہہ کے ذریعہ ان کے ظاہری مفہوم ومعانی سے اعراض کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ اس کی کچھ ضرورت ہے کیونکہ ان حدیثوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ انسانی عقل وفہم سے کتنا ہی ماوراء کیوں نہ ہو ، اس کے برحق اور سچ ہونے کے لئے یہی ایک بات کافی ہے کہ اس کا تعلق قادرمطلق ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ظہور سے ہے اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی خبر صادق ومصدوق (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دی ہے ، لہٰذا ان کی صداقت شمہ برابر بھی شک وشبہ سے بالاترہے ۔
شق صدر میں حکمت :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو چاک کرکے قلب مبارک کو صاف کرنے میں قدرت کی یہ حکمت کار فرما تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن اسی طرح مجلی وپاکیزہ اور قلب مبارک اس قدر لطیف وروشن ہوجائے کہ وحی الہٰی کا نورجذب کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے اور منصب رسالت کا بار اٹھانے کے لئے قلب ودماغ پہلے سے تیار رہے ، نفسانی وسوسوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں سے گزر نہ ہو اور شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کی طرف سے غافل کرنے میں نہ صرف یہ کہ کامیاب نہ ہوسکے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل مایوس ہوجائے ، جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے الفاظ ہذا حظ الیشطان منک اس طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
یہ بتا دینا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شق صدر سینہ چاک کئے جانے ) کا واقعہ چار مرتبہ ظہور میں آیا ہے ایک مرتبہ تو بچپن میں دایہ حلیمہ کے پاس ، جس کا ذکر اس حدیث میں ہے ، دوسری مرتبہ دس سال کی عمر میں ، تیسری مرتبہ ظہور نبوت کے وقت اور چوتھی مرتبہ شب معراج میں اس وقت جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لینے آئے ۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ سینہ مبارک کا چاک کیا جانا اور قلب مبارک کا دھویا جانا صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا یا دوسرے پیغمبروں کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو روایت " تابوت" اور سکینہ " کے بارے میں منقول ہے اس میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس (تابوت ) میں (دوسرے تبرکات کے علاوہ ) وہ طشت بھی تھا ، جس میں انبیاء علیہ السلام کے دل دھوئے گئے تھے ، اس روایت سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دوسرے انبیاء علیہ السلام کے بھی سینے چاک کئے گئے اور ان کے دل دھوئے گئے تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں