مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 433

نبوت کی علامتوں کا بیان :

راوی:

علامات " علامت کی جمع ہے اور علامت اصل میں تو مطلق نشان کو اور خاص طور پر اس نشان کو کہتے ہیں جو راستہ کے سرے پر قائم کیا جاتا ہے اور جس کا مقصد مسافروں اور راہ گیروں کو ان کے راستے اور ان کی منزل کا پتہ بتانا ہوتا ہے ۔ اسی قبیل کے دو اور لفظ معلم اور علم کے بھی یہی معنی ہیں لیکن یہاں علامات (یاعلامتوں ) سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کو ظاہر وثابت کرتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اخلاقی صفات وخصوصیات ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل وشمائل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال واحوال پر اس طرح دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی عقلمند اور سمجھ دار شخص ان کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کا یقین حاصل کرسکتا ہے ۔ نیز سابقہ آسمانی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جن صفات وخصوصیات اور احوال کا ذکر ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہیں ۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جتنے معجزے عطاہوئے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی علامتوں میں سے ہیں ، اس اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مؤلف مشکوٰۃ نے جو دوباب قائم کئے ہیں ایک تو یہی " نبوت کی علامتوں کا بیان اور دوسرا " معجزات کا بیان " اس کا کیا سبب ہے اور انہوں نے " علامتوں ' اور معجزوں " کے درمیان کیا فرق ملحوظ رکھا ہے ، جب کہ ان دونوں میں خوارق (معجزات ) ہی کا ذکر ہے شارحین مشکوٰۃ بسیار غوروفکر کے باوجود اس کی کوئی مضبوط وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں،

یہ حدیث شیئر کریں