مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 407

مصافحہ ومواجہہ اور مجلس میں نشست کا طریقہ :

راوی:

وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا صافح الرجل لم ينزع يده من يده حتى يكون هو الذي ينزع يده ولا يصرف وجهه عن وجهه حتى يكون هو الذي يصرف وجهه عن وجهه ولم ير مقدما ركبتيه بين يدي جليس له . رواه الترمذي

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص سے مصافحہ ( اور ملاقات ) کرتے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک علیحدہ نہ کرتے جب تک کہ وہی شخص اپنا علیحدہ نہ کرلیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپناچہرہ مبارک اس کے چہرہ کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹاتے تھے جب تک کہ وہی شخص اپنا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے سے نہ ہٹا لیتا ، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی نے اس حال میں نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھٹنے اپنے ہم نشین کے آگے کرکے بیٹھے ہوں ۔ (ترمذی )

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں وصف کہ جب تک مصافحہ کرنے والا خود اپنا ہاتھ علیحدہ نہ کرلیتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے علیحدہ نہ کرتے اور جب تک کہ وہ شخص خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے نہ ہٹ جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ رہتے اور اس کی طرف سے اپنا روئے مبارک نہ ہٹاتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوئے اخلاق ، نہایت تحمل وبردباری اور تواضع وانکساری پر دلالت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ بات بھی آداب مجلس کے خلاف تھی کہ اپنے کو نمایاں ، برتر اور بڑا ظاہر کرنے کے لئے مجلس میں اپنے برابر بیٹھے ہوئے شخص سے آگے ہو کر بیٹھیں ، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو سب کے ساتھ ایک صف میں ہو کر برابر بیٹھتے اور اپنے گھٹنے اور زانو آگے بڑھا کر نہ بیٹھتے جیسے گھمنڈی لوگوں کی عادت ہوتی ہے بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آداب مجلس کی رعایت ، مہذب طریقہ پر عمل اور اہل مجلس کی تعظیم کے پیش نظر لوگوں کے سامنے اپنے گھٹنے کھڑے کر کے نہیں بیٹھتے تھے ۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ" رکبتین " سے مراد دونوں پاؤں ہیں ، اور ان کے آگے بڑھانے سے مراد مجلس میں پاؤں پھیلا کر بیٹھنا ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آداب مجلس کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی کسی کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ۔ بہرحال اس حدیث میں امت کے لئے یہ تعلیم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر عمل کر کے اپنے ہر مسلمان بھائی کی خاطر داری اور تعظیم وتکریم کرنی چاہیے خواہ وہ مرتبہ میں اپنے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں