آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عوامی تعلق :
راوی:
وعن خارجة بن زيد بن ثابت قال : دخل نفر على زيد بن ثابت فقالوا له : حدثنا أحاديث رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : كنت جاره فكان إذا نزل الوحي بعث إلي فكتبته له فكان إذا ذكرنا الدنيا ذكرها معنا وإذا ذكرنا الآخرة ذكرها معنا وإذا ذكرنا الطعام ذكره معنا فكل هذا أحدثكم عن رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه الترمذي
اور حضرت خارجہ ابن زید ابن ثابت کہتے ہیں کہ (ایک دن ) کچھ لوگوں کی جماعت (میرے والد محترم ، حضرت زید ابن ثابت کے پاس آئی اور ان سے کہا کہ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (وہ ) حدیثیں بیان کیجئے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور عام لوگوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین اور خوشگوار تعلقات کو ظاہر کریں ) حضرت زید نے کہا !میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پڑوس میں رہا کرتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا مجھے بلا بھیجتے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وحی لکھتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا ( کی خرابیوں یا دنیا کے مزرعۃ الآخر ۃ ہونے کے اعتبار سے اس کی خوبیوں ) کا ذکر کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ اس دنیاوی ذکر میں شامل ہوجاتے ، جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ آخرت کا ذکر کرتے ، اور جب ہم کھانے پینے کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ اس کا ذکر کرتے ۔ یہ تمام باتیں میں تم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتا رہا ہوں ۔ (ترمذی )
تشریح :
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پڑوس میں رہا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ " اس جملہ کے ذریعہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ مجھے روحانی اور جسمانی دونوں طور پر بہت زیادہ قربت حاصل تھی ، اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی اور سماجی زندگی کی تفصیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ کے معاملات وحالات کا علم دوسروں کی بہ نسبت مجھے بہت زیادہ ہے ۔
حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عوام کے درمیان بڑا گہرا سماجی رابطہ تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام اور لوگوں کے ساتھ نہایت خوشگوار اور بے تکلفانہ معاشرتی تعلقات رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سماجی گفت وشنید علمی بحث ومباحثہ ، دینی باتوں کے ذکر واذکار اور ان دنیاوی معاملات واخبار میں مساوی طور پر حصہ لیا کرتے تھے جن کا تعلق معاشرہ کے مختلف احوال وکوائف، واقعات وحادثات اور لوگوں کے حقوق وعادات سے ہوتا تھا لیکن یہ گفت وشنید اور ذکر واذکار اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کا تعلق صرف ان باتوں سے ہوتا تھا جو مذموم ومکروہ باتوں کا تعلق ہے تو نہ یہ ہوسکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا ذکر آئے اور نہ اس ذکر واذکار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کا تصور کیا جاسکتا ہے پس یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے کہ :
انہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخزن لسانہ الا فیما یعینہ وان مجلسہ علم۔
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کو محفوظ (بند ) رکھتے تھے علاوہ اس بات کے جو کام کی اور ضروری ہو، یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس خالص علمی مجلس ہوتی تھی ۔"
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بسااوقات دنیاوی معاملات کے ذکرواذکار سے بہت سے علمی ، معاشرتی معلوماتی ، اور ادبی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں ، لہٰذا جس مجلس میں کسی بھی ایسے دنیاوی امور سے متعلق گفتگو ہوجن سے مذکورہ فائدے حاصل ہوتے ہوں تو اس مجلس کو علمی مجلس میں شمار کیا جائے گا ، اور اگر کسی دنیاوی معاملہ سے متعلق غیر مذہبی بات چیت کے بارے میں یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ وہ مذکورہ فائدوں سے خالی رہی ہو اس صورت میں اس بات چیت اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کو بیان جواز پر محمول کیا جائے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے اکثر مباح امور میں بھی بات کرلیا کرتے تھے تاکہ وہ (صحابہ ) اس کا جواز جان لیں اور بیان جواز کے لئے اس طرح کی بات چیت میں حصہ لینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب بھی تھا یہ تمام باتیں تم لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتا رہا ہوں ، حضرت زید نے یہ بات حدیث کے صحیح اور مستند ہونے کو اہمیت کے ساتھ ظاہر کرنے اور روایت حدیث کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے کہی ،