مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 405

اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے تھے ۔

راوی:

وعن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يخصف نعله ويخيط ثوبه ويعمل في بيته كما يعمل أحدكم في بيته وقالت : كان بشرا من البشر يفلي ثوبه ويحلب شاته ويخدم نفسه . رواه الترمذي

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے تھے ، اپنا (نیا یا پرانا ) کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر کا کام کاج اسی طرح کرتے تھے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر کا کام کاج کرتا ہے ۔' اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مزید فرمایا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے ہی انسان تھے جیسے دوسرے انسان ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے ، اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنی خدمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرلیتے تھے (یعنی اپنا ذاتی کام خود ہی کرلیا کرتے تھے کسی دوسرے سے کرنے کے لئے کم ہی کہا کرتے تھے ۔ (ترمذی)

تشریح :
اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے ۔" سے کیا مراد ہے کہ وقتا فوقتا اپنے کپڑوں کو خود دیکھا کرتے تھے کہ کہیں ان میں جوئیں تو نہیں پڑگئیں ہیں ۔ پس یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں آیا ہے کہ جوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان نہیں کرتی تھیں !نیز مواہب لدنیہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں یا بدن مبارک کے کسی حصہ میں کبھی کوئی جوں نہیں پڑی ۔ اسی طرح امام فخر الدین رازی نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی ایک انسان تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔" اس جملہ کے بارے میں طیبی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے یہ بات بطور تمہید فرمائی جس کا مقصد آگے کہی جانے والی بات کے پس منظر کو ظاہر کرنا تھا ۔ دراصل حضرت عائشہ نے جب دیکھا اور سنا کہ کفار ومشرکین یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی اور رسول ہوتے تو وہ اپنا رہن سہن اور طور طریقہ عام لوگوں کی طرح نہ رکھتے گویا ان کفار کے نزدیک اللہ کے رسول کو اس بادشاہ اور سردار کی طرح اپنی زندگی گذارنی چاہے تھی جو عام لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں سے اجتناب کرتا ہے شان وشوکت کے ساتھ رہتا ہے ، اپنی بڑائی اور دبدبہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ کفار کی اس بات کو قرآن نے بھی ان الفاظ میں نقل کیا ہے ۔
مال ہذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق ۔
اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ عام لوگوں کی طرح ) کھانا کھاتا ہے ، اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔'
پس حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کفار کے اس خیال اور قول کی تردید میں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوقات ہی میں سے ایک مخلوق تھے اور اسی طرح ایک انسان تھے جیسے اولاد آدم میں سے دوسرے انسان ہیں ۔ اگر دوسرے انسانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت ونبوت کے منصب عظمی سے سرفراز فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے اعلیٰ ترین قدروں سے مزین کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلاق واطوار کی وہ خوبیاں عطا فرمائیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات آ دمیت کے شرف وامتیاز کا مظہر اور نمونہ قرار پائی ، جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے :
قل انما انا بشر مثلکم یؤ حی الی ۔
آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں بس فرق یہ ہے کہ ) مجھ پر وحی آتی ہے ۔"
چنانچہ ذاتی عظمت اور اخلاق انسانی کی بلندی کی اس سے بڑی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرف و مرتبت کے سب سے اعلی مقام پر فائز ہونے کے باوجود ایک عام انسان جیسی زندگی گذارتے تھے اور اللہ عام بندوں کی طرح نہایت سادگی اور جفاکشی کے ساتھ رہتے تھے عام لوگوں کے ساتھ کے ساتھ خلط ملط ، ان جیسا رہن سہن، ان جیسی محنت ومشقت اور ان کے ساتھ ہمدردی وغمگساری بھی تھی کہ تواضع وانکساری کو انسانی کردار کی بلندی سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اس کی ہدایت کو اس کی مخلوق تک پہنچانے کی ذمہ داری کو ایک ایسا منصب جانا جائے ، جس کے فرائض کی انجام دہی عوامی رابطہ کے بغیر ممکن نہیں اور عوامی رابطہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اپنے نفس کو خود بینی وخود پسندی کے جال سے نکال کر اور ظاہر شان وشوکت سے اجتناب کرکے خود کو ایک عام انسان کی صورت میں پیش کیا جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں