آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو نہیں مارا :
راوی:
وعنها قالت : ما ضرب رسول الله صلى الله عليه و سلم لنفسه شيئا قط بيده ولا امرأة ولا خادما إلا أن يجاهد في سبيل الله وما نيل منه شيء قط فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شيء من محارم الله فينتقم لله . رواه مسلم
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی چیز (یعنی آدمی ) کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ، عورت اور خادم کو بھی نہیں ، علاوہ اس صورت کے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ (کسی شخص کی طرف سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اذیت وتکلیف پہنچی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذیت وتکلیف پہنچانے والے سے انتقام لیا ہو ہاں اگر اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کا ارتکاب کیا جاتا تو آپ اللہ (کے حکم کی تعمیل ) کے لئے اس کو سزا دیتے تھے ۔" (مسلم )
تشریح :
ترجمہ میں بین القوسین " آدمی کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ بعض موقعوں پر سواری کے جانور کو مارنا منقول ہے ۔" خادم " کا اطلاق مرد و عورت دونوں صنف کے خادم پر ہوتا ہے !نیز اس ارشاد گرامی میں خادم اور عورت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے کہ عام طور پر ان دونوں کو " کمزور جان کر زیادہ مارا اور ستایا جاتا ہے اور چونکہ مرد کا زندگی میں انہیں دونوں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے ، نجی اور خانگی معاملات کا پیشتر انحصار انہی پر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی طرف سے غصہ اور ناراضگی کے مواقع زیادہ آتے رہتے ہے ، اس لئے ان دونوں کو خاص طور پر ذکر کے اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ اس باب ان دونوں کو غیر اہم نہ جانا جائے ایسا نہیں ہے کہ ان دونوں کی کمزوری اور لاچاری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک روا رکھا جاسکتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ان کو مارا پیٹا جاسکتا ہے اگرچہ بعض حالات میں اور کچھ شرائط کے ساتھ ان کو تھوڑا بہت مار دینا جائز ہے لیکن ان حالات میں مارنے سے اجتناب کرنا بھی اولی قرار پاتا ہے اس پر اولاد کو مارنے کے مسئلہ کو قیاس نہ کرنا چاہے کیونکہ ان کی تادیب سب سے مقدم ہے اور اس سلسلہ میں اسی رو رعایت کی گنجائش نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کو مارنا اس کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے جب کہ ان دونوں کو مارنے کا تعلق زیادہ تر نفس کے غلط تقاضے سے ہوتا ہے صحیح تریبت اور تادیب کے پیش نظر اولاد کی غلطی پر اس کو مارنا اولی ہے اور نفس کے تقاضے اور غصہ پر قابو رکھنے کے لئے ان دونوں (خادم اور عورتوں ) کے تئیں عفو ودرگذر کا معاملہ اولی قرار پایا ۔
علاوہ اس صورت کے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے ۔خدا کی راہ میں جہاد اللہ کے دشمنوں سے ہوتا ہے ، اس لئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے ساتھ عفو ودرگذر کا معاملہ نہیں کرتے تھے ۔چنانچہ غزوہ احد میں ایک دشمن اللہ ابی ابن خلف کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔ نیز یہاں اللہ کی راہ میں جہاد کا اطلاق صرف اللہ کے دشمنوں کو مارنے ہی پر نہیں بلکہ حدودوتعزیرات (شرعی ودینی سزاؤں کے نفاذ) صورتیں بھی مراد ہیں ۔